بلاگزعوام کی آواز

یقین، اختیار اور تقدیر: کیا انسان اپنی تقدیر بدل سکتا ہے؟

عظمیٰ اقبال

کیا ہماری زندگی وہی ہے جو ہمارے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھی جا چکی ہے؟ یا ہم خود اپنی تقدیر کے معمار ہیں؟ یہ سوال صدیوں سے انسانی ذہن کو الجھائے ہوئے ہے۔ تقدیر پر ایمان اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، تقدیر پر ایمان اللہ کی قدرت پر یقین رکھنے کا نام ہے۔

ڈاکٹر جاوید خان (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ علوم اسلامیہ و عربیہ، یونیورسٹی آف سوات) اپنی کتاب ’’رہنمائے مطالعہ اسلامیات‘‘ میں لکھتے ہیں: "تقدیر پر ایمان لانے کا مطلب اس بات کی تصدیق کرنا ہے کہ خیر و شر اللہ کی قضا و قدر سے ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر نہیں ہوتی۔ اللہ کی تدبیر کے بغیر کوئی شے وجود میں نہیں آتی۔ اس کے باوجود انسان کو چند باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور چند سے منع کیا گیا ہے، اور اُسے اپنے فعل میں اختیار دیا گیا ہے۔”

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بتایا گیا ہے کہ انسان کو ارادے اور عمل کی آزادی دی گئی ہے، لیکن کچھ امور اس کے اختیار سے باہر بھی ہیں۔ علمائے کرام کے مطابق تقدیر پر ایمان کا یہ مطلب نہیں کہ انسان کوشش کرنا چھوڑ دے بلکہ یہ ہے کہ انسان اپنی کوشش جاری رکھے اور اللہ کی رضا پر راضی رہے۔

اسلامی عقیدہ کے مطابق، تقدیر پر ایمان بنیادی ارکان میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک نظام مقرر کر رکھا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان بے اختیار ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: "بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے” (سورہ الرعد: 11)۔

علماء کرام کے مطابق تقدیر پر ایمان رکھنے کے ساتھ عقل اور احتیاط کا دامن بھی تھامے رکھنا چاہیئے۔ حضرت عمر بن الخطابؓ شام کی طرف قافلے کے ساتھ جا رہے تھے کہ راستے میں معلوم ہوا کہ وہاں طاعون کی وبا پھیل چکی ہے۔حضرت عمرؓ نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ کسی نے سوال کیا: ’’کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟‘‘ حضرت عمرؓ نے جواب دیا: ’’ہاں، میں ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جا رہا ہوں۔‘‘

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں، وہ ہماری لکھی گئی قسمت کے مطابق ہوتا ہے۔ مذہبی سکالرز کے مطابق اللہ نے 50 فیصد اختیار انسان کو دیا ہے جبکہ باقی 50 فیصد اپنے پاس رکھا ہے۔

ڈاکٹر فضل الحق (لیکچرار، شعبہ علوم اسلامیہ و عربیہ، یونیورسٹی آف سوات) کے مطابق: "اللہ نے انسان کو کچھ باتوں میں اختیار دیا ہے، جیسے ایک پاؤں اپنی مرضی سے اٹھا سکتا ہے، لیکن دوسرا اگر اٹھائے گا تو گِر جائے گا۔ اسی طرح انسان کو کچھ باتوں میں اختیار دیا گیا ہے اور کچھ باتوں میں نہیں۔”

اکثر لوگ مانتے ہیں کہ انسان اپنے برے اعمال کا خود ذمہ دار ہے، لیکن یہ اعمال بھی تقدیر میں پہلے سے لکھے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق: ’’انسان کے برے کاموں میں اللہ کی مرضی شامل نہیں ہوتی، بلکہ اللہ جانتا ہے کہ انسان کیا کرے گا، لہٰذا وہ اسی کے مطابق نصیب لکھتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر جاوید خان اپنی کتاب میں تقدیر کی دو اقسام بیان کرتے ہیں: تقدیر مبرم اور تقدیر معلق۔ تقدیر مبرم اللہ کا حتمی فیصلہ ہوتا ہے، جیسا کہ موت کا وقت، جو لوح محفوظ میں درج ہوتا ہے اور ناقابلِ تبدیلی ہوتا ہے۔ تقدیر معلق وہ ہے جو عمل کے نتیجے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ تقدیر پر ایمان لانا چار امور پر مشتمل ہے: (1) علم: اللہ کو ہر چیز کا پہلے سے علم ہے۔ (2) کتابت: سب کچھ لوح محفوظ میں لکھا جا چکا ہے۔ (3) مشیئت: اللہ کی مشیئت ہر صورت نافذ ہوتی ہے۔ (4) خلق: اللہ ہی سب کو پیدا کرنے والا ہے۔

سب سے پہلے  اللہ کے علم کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یہ ایمان لانا کہ اللہ تعالٰی کو ہر جیز کا اجمالی اور تفصیلی علم ہے ،اور یہ کہ اللہ تعالٰی کو اپنی مخلوق کی تخلیق سے پہلے علم ہوگیا، ان کی روزی ،ان کی مدت حیات انکے اقوال واعمال ،ان کی تمام حرکات و سکنات ان کے کھلے اور چھپے، کون جنتی ہے اور کون دوزخی ہے، اللہ تعالٰی کو ان تمام باتوں کا علم پہلے سے ہے۔”

مشیئت پر ایمان یعنی اللہ کی مشیئت پر ایمان رکھنا کہ وہ بہر صورت نافذ ہوگی ،اسے کوئی جیز رد نہیں کر سکتی اور اس کی قدرت کو کوئی جیز نہیں روک سکتی، دنیا کے تمام واقعات اللہ کی مشیئت اور اس کی قدرت کے تحت وقوع پذیر ہوتے ہیں، جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا۔

خلق یعنی یہ ایمان رکھنا کہ اللہ سبحانہ ہی تمام چیزوں کو وجود میں لانے والا اور وہی تنہا پیدا کرنے والا ہے بقیہ تمام جیزیں اسی کی مخلوق ہیں اور وہ ہر جیز پر قدرت رکھتا ہے۔”

علمائے کرام کے مطابق دعا سے تقدیر بدل سکتی ہے، لہٰذا انسان کو تقدیر پر ایمان رکھتے ہوئے دعا اور کوشش جاری رکھنی چاہیے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button