کلائمیٹ چینج، ایک خطرناک موڑ: غیر متوقع بارشیں اور قدرتی آفات میں اضافہ

کیف آفریدی
موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، شدید موسمی واقعات میں اضافے سے ملک کے مختلف علاقوں میں لوگ اور معیشت سمیت حیاتیاتی تنوع متاثر ہو رہی ہے۔ نومبر، دسمبر اور جنوری یعنی سردیوں کی بارشیں اب مارچ اور اپریل میں برستی ہیں، خیبر پختونخوا میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پاکستان میں بارشوں کے اوقات میں نمایاں تبدیلی اور شدت ملک کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ خیبرپختونخوا پرونشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی رپورٹ کےمطابق حالیہ بارشوں میں صوبے کے مختلف علاقوں میں 6 افراد جانبحق اور 10 زخمی ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 26 فروری سے اب تک مرنے والوں میں 4 مرد اور دو خواتین شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں پانچ بچے، تین خواتین اور دو مرد شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ بارشوں سے مجموعی طور پر 15 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ جس میں دس جزوی اور پانچ گھ مکمل تباہ ہوئے۔ یہ حادثات، ضلع خیبر، ہنگو، دیر، تورغر، باجوڑ، اپر اور لوئر کوہستان، بٹگرام اور ہرپور میں پیش آئے۔
بارشوں کے رویے میں شدت یعنی شدید موسمی واقعیات میں اضافے سے پچھلے سال جولائی سے اگست تک طوفانی بارشوں، سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے صوبے کے مختلف اضلاع میں کل 61 ہلاکتیں ہوئی تھیں، جس میں 27 بچے 22 مرد اور12 خواتین شامل تھے۔ رپورٹ میں 102 لوگ افراد زخمی بھی ہوئے تھے جبکہ 704 گھروں میں 501 جزوی اور 203 مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے۔
کلائئمیٹ چینج کی وجہ سے بارشوں کی ترتیب بدل گئی
میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ پشاور کے ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد فہیم نے ٹی این این کو بتایا کہ معمول سے زیادہ بارشیں اور پھر ایک دم خشک سالی، گرمی کی شددت میں بے انتہا اضافہ موسمیاتی تغیر کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
بین الاقوامی ادارے اور خاص کر آئی پی سی سی وغیرہ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کلائمیٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کا اثر اور بھی بڑھے گا جیسے کہ گرمی کا دورانیہ زیادہ ہونا یا معمول سے زیادہ بارشیں ہونا اس میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال بھی پری مون سون بارشیں معمول سے زیادہ ہوئی تھی۔ اپریل کے مہینے میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے موسم ٹھنڈا ہوا تھا لیکن سال 2024 جولائی کے مہینے میں دنیا کے گرم ترین دن ریکارڈ بھی بنا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے اور ہمیں اندازہ ہو رہا ہے کہ پچھلے سالوں کی نسبت اس سال میں گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ڈاکٹر فہیم نے کہا کہ اکتوبر سے شروع ہونے والی خشک سالی سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور کئی مہینوں تک بارشیں نہ ہونے سے سموگ نے پاکستان کے بڑے شہروں پر راج کیا۔ حالانکہ پہلے اکتوبر کے آخر سے بارشیں شروع ہوا کرتی تھی اور اسی طرح نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں شمالی علاقہ جات اور پہاڑی علاقوں میں برف باری ہوتی تھی، تاہم موسمیاتی تغیر نے اس پیٹرن کو مکمل تبدیل کر دیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں مون سون سیزن میں بارشوں کا ہونا معمول کی بات ہے لیکن کلائمیٹ چینج کی بدولت بارشوں کے اوقات میں تبدیلی اور شدت ایک سنگین خطرہ بننے جا رہی ہے۔ فہیم نے بتایا کہ پچھلے 5 سالوں سے بارشوں میں شدت دیکھنے کو ملی ہے، سردیوں کی طویل مگر ہلکی بارشیں اب اپنے مقررہ اوقات میں نہیں ہوتی، دسمبر اور جنوری کی طویل ہلکی بارشیں اب مارچ اپریل میں داخل ہوچکی ہیں۔ جو بادل 4 دنوں میں برستے تھے اب 2 گھنٹوں یا ایک دن میں برستی ہیں جو شہروں اور دیہاتوں میں سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کر جاتی اور اور اسی وجہ سے لوگوں کی جانیں اور گھر محفوظ نہیں ہیں۔
گرمی کا دورانیہ کیوں بڑھ رہا ہے؟
کلائمیٹ چینج کی بڑی وجوہات میں کاربن گیسوں کا اخراج، گاڑیوں، بھٹہ خشتوں اور صنعتی کارخانوں سے نکلنے والا دھواں، جنگلات کا کٹاؤ اور بڑھتی ہوئی آبادی شامل ہیں۔ مذکورہ عوامل کی وجہ سے تیزی سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان میں زراعت، توانائی سمیت دیگر شعبوں کو شدید متاثر کیا ہے۔
یاد رہے! سال 2024 دنیا کی تاریخ کا گرم ترین سال ہے جہاں عالمی اوسط درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے 1.5 ڈگری سیلسیس زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ ورلڈ میٹیورولوجیکل آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2025 کو عالمی سطح پر اب تک کا سب سے گرم مہینہ قرار دیا گیا ہے۔
گرم ترین سال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، انتونیو گوتریس نے صورتحال کی سنگینی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس تباہ کُن راستے سے باہر نکلنا ہوگا، اور ہمارے پاس ضایع کرنے کے لئے وقت نہیں ہے، انہوں دنیا کے لیڈروں سے اپیل کی بر وقت کاروائی ہی ہمیں اس تباہی سے بچا سکتی ہے۔
"پہلے تو خشک سالی ہوتی ہے اور اگر پھر بارشیں ہوتی ہے تو وہ اتنی شدید ہوتی ہے کہ لوگوں کی جان اور معیشت کے لئے خطرہ بن جاتی ہیں”۔
جاوید خان اینوارمنٹل جرنلسٹ نے ٹی این این کو بتایا کہ کلائمئیٹ چینج کی وجہ سے ہر سال بارشیں یا تو معمول سے کم ہوتی ہے یا پھر زیادہ ہوتی ہے اور ظاہر ہے جب پیٹرن سے ہٹ کر بارشیں برستی ہیں وہ نقصان دہ ہی ہوتی ہے۔ جہاں تک رواں مہینے میں بارشوں کی بات ہے تو اس سے سردی میں کوئی اضافہ دیکھنے کو نہیں ہو رہا اگر دیکھا جائے تو ایک دن مسلسل بارش ہوتی ہے پر اگلے دن جیسے ہی سورچ نکلتا ہے تو موسم گرم ہو جاتا ہے۔
جاوید خان کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے نہ صرف بارشوں کا پیٹرن تبدیل ہو گیا بلکہ گرمی کا دورانیہ بھی بڑھ رہا ہے اور میرے اندازے کے مطابق جس طرح ہر سال جون، جولائی اور آگست کے مہینوں میں ہیٹ ویوز میں اضافہ ہوتا ہے۔ رواں برس یہ اضافہ شددت اختیار کرے گا۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق جب کسی علاقے، شہر یا ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث اوسط یا عمومی درجہ حرارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا جائے تو ہیٹ وہیو کہتے ہیں یا لو بھی اسے کہا جاتا ہے۔ شدید گرمی کی یہ لہر ایک دن سے لے کر کئی روز اور ہفتوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
بے ترتیب اور تباہ کن بارشوں سے زراعت بھی متاثر ہو رہا ہے۔ دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا کی کلائمئیٹ چینج پالیسی 2022 میں واضح ہے کہ موسمیاتی تغیر کی وجہ سے زراعت بہت متاثر ہو رہا ہے۔ کیونکہ 2010 کے سیلاب سے لیکر 2022 سیلاب تک زراعت کی پروڈکشن کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کےعلاوہ بھی بہت سارے مسائل ہے مثلا پالیسی پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ کراپ رپورٹںگ کے مطابق ہر سال شدید اور طوفانی بارشوں، ژالہ باری اور تیز آندھی کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کسانوں کو ٹیکنالوجیز کے آلات کو اپنانا ہو گا خاص کر ریزیلسنز سیڈ کا استعمال کرنا ہو گا تاکہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کر سکے۔
پاکستان میں مون سون سیزن ہی میں بڑے سیلاب آتے ہیں، 2010 سیلاب کے بعد مون سون میں بارشیں سیلابی شکل اختیارکر جاتے ہیں لیکن سال 2022 کا سیلاب ایک آئینہ تھا جس نے پاکستان میں 3 کروڑ سے زیادہ لوگوں متاثر کیا تھا۔ خونی سیلاب میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک جبکہ تقریبا 10 لاکھ گھر تباہ ہوئے تھے، ملکی معشت کو قریب 15 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
لیکن حال ہی میں مارچ اور اپریل کے مہینوں میں خیبر پختونخوا میں شدید ریکارڈ بارشیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے کئی لوگ ہلاک اور زراعت کو نقصان پہنچا تھا۔ جاوید خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں کلائمیٹ چینج کے لئے پالیسیاں اور ایکشن پلانز صرف کاغذوں تک محدود ہیں اگر حکومتیں اسی طرح کلائمیٹ چینج خطرے کو نظر انداز کرتی رہی تو اس کا رد عمل اتنا بیانک ہو سکتا ہے جس کا حل پھر شاید ہمارے پاس ہو۔