ایک فرسودہ روایت کے سائے، اولاد نرینہ نہیں تو یہ عورت اپنے شوہر کے قبرستان میں نا دفنائی جائے
ساری زندگی اولاد پیدا نہ ہونے کہ طعنے سننا اور پھر مرنے کے بعد قبر کی جگہ تک نہ ملنا یہ کون سا انصاف ہے ؟

بشریٰ محسود
ویسے تو آج کا دن خواتین کے حوالے سے منایا جا رہا ہے، جس میں خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محرومی کے حوالے سے آگاہی دی جاتی ہے اور خواتین کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے لیکن کچھ ہی دن پہلے ہونے والے ایک واقعے نے مجھے حیران کر کے رکھ دیا ویسے تو قبائلی اضلاع کی خواتین بنیادی حقوق سے محروم ہے ہی، جیسا کہ صحت کی سہولیات کا فقدان، تعلیمی اداروں کی کمی، امن و امان کی صورتحال اور زندگی کی بنیادی سہولیات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا، لیکن کچھ ایسی فرسودہ روایات بھی ہیں جس نے عورت کی زندگی کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔
جیسا کہ وزیرستان کی ایک فرسودا روایت کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ابھی کچھ دن پہلے ایک عورت جس کی عمر تقریبا پچاس سال کے قریب تھی وفات پا گئی، جب اس کے دفنانے کی بات آئی تو اس کو اپنے والدین کے قبرستان میں دفنایا گیا حالانکہ وہ شادی شدہ تھی اور اپنے شوہر کے ساتھ اپنی زندگی کے تیس، پنتیس سال گزار چکی تھی۔
اس کے والدین اس شہر میں بھی نہیں رہتے بلکہ اسی شہر سے دور کسی دوسرے شہر میں تین سے چار گھنٹے کے فاصلے پر تھے۔ جب میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے، اس کو یہاں ہی کیوں نہیں دفنا رہے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہماری روایات کے مطابق جس عورت کی شادی ہو جاتی ہے اور اس کی اولاد نرینہ نہیں ہوتی یا اولاد ہی نا ہوں تو وہ جس عمر میں بھی وفات پاتی ہے تو وہ اپنے والدین کے قبرستان میں دفنائی جاتی ہے نہ کہ شوہر کی قبرستان میں اور یہ سب سن کے میں حیران رہ گئی
بچپن سے ہی ہم کچھ محاورے سنتے آرہے تھے لیکن میں اس کو صرف محاوروں کی حد تک ہی لیتی رہی مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ حقیقت ہے۔ جب بھی کسی عورت کی اولاد نرینہ پیدا ہوتی تھی تو بڑی عورتیں اکثر ایک بات دہرایا کرتی تھی کہ شکر ہے تم نے شوہر کے قبرستان میں جگہ بنا لی تب مجھے یہ بات صرف مردانہ اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے بولے جانے کے حوالے سے ہی اہم لگتی تھی مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ حقیقت ہے۔
اور اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایسی کوئی روایت، کوئی بھی حدیث سامنے نظر نہیں اتی اور نہ قران میں اس کے بارے میں کوئی تعلیمات موجود ہے۔ مقامی علماء سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بھی اس کی تردید کی اور کہا کہ اسلام میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد انسان کو جہاں پر بھی دفنایا جائے اس میں کوئی ایسی بات نہیں کہ اس کو والدین کی قبرستان میں ہی دفنانا ہے اور شادی ہو جانے کے بعد ایک عورت کی ساری ذمہ داری اس کے شوہر کی ہوتی ہے۔
جہاں زندگی کی دیگر ضروریات اس کو فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مرنے کے بعد عزت کے ساتھ اس کی تدفین بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے ۔ اور پاکستان کے قانون میں بھی ایسی کوئی بات موجود نہیں جس میں لکھا ہو کہ عورت کو شادی کے بعد اولاد نہ ہونے پر یا نرینہ اولاد نہ ہونے پر والدین کی قبرستان میں دفنایا جائے اور شوہر کے قبرستان میں اس کی جگہ نہیں۔
میں حیران اس بات پر ہوں کہ ایک عورت جس نے اپنی زندگی کے تیس ، پینتس سال اپنے شوہر اور سسرال کی خدمت میں گزارے تو کیا اس کو صرف اس کی خدمت کے صلے میں بھی اپنے قبرستان میں جگہ نہیں دی جا سکتی صرف اس لیے کہ اس کی اولاد نہیں تھی یا اولاد نرینہ نہیں تھی اور میں بہت پریشان ہوئی کہ ایک عورت جو کہ ساری زندگی اپنی بنیادی سہولیات سے تو محروم ہوتی ہی ہے لیکن مرنے کے بعد اس کو اپنے شوہر کے آبائی قبرستان میں جگہ نہ دینا اس کی ذمہ داری میں کس پہ ڈالوں ؟
چونکہ یہ روایت ہماری علاقے میں سالوں سے چلی آرہی ہے اس لیے وہاں کے لوگ شاید اس بات کو محسوس بھی نہیں کرتے لیکن مجھے یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا ہے اور میں اس مسئلے کو اس وقت تک اجاگر کرتی رہوں گی جب تک تمام لوگوں کے ذہن اور خیالات تبدیل نہ ہو جائے کیونکہ مجھے عورت کی یہ ایک توہین لگی کہ مرنے کے بعد بھی اس کو عزت کے ساتھ اپنے شوہر کے آبائی قبرستان میں جگہ تک نہیں دی جاتی۔
صرف اس لیے کے اس نے اولاد پیدا نہیں کی یا اس نے اولاد نرینہ پیدا نہیں کی جبکہ قران میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ اولاد انسان کے اختیار میں نہیں یہ سب اللہ تعالی کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے بیٹا دے اور جس کو چاہے بیٹی دے اور جسے چاہے اولاد نہ دے۔
تو اس کی سزا صرف عورت کو ہی کیوں دی جاتی ہے ؟
ساری زندگی اولاد پیدا نہ ہونے کہ طعنے سننا اور پھر مرنے کے بعد قبر کی جگہ تک نہ ملنا یہ کون سا انصاف ہے ؟
اور میں وزیرستان کے لوگوں سے یہ ایک سوال ضرور کرنا چاہوں گی کہ کیا ایک عورت اپنے شوہر کے گھر میں صرف اولاد پیدا کرنے کے لیے ہی اتی ہے ؟
کیا اس گھر میں ایک بہو اور ایک بھابھی اور ایک گھر کا فرد ہونے کی حیثیت سے اس کی کوئی اہمیت نہیں ؟ اگر وہ اس گھر میں صرف ایک ماں بننے کی حیثیت سے لائی گئی ہے تو پھر اس کے شوہر ساری زندگی اس سے اپنے بھائیوں اپنے ماں باپ اور اپنے خاندان والوں کی خدمتیں کیوں کرواتے ہیں ؟
جبکہ اسلام میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ایک عورت کو عزت اور بنیادی حقوق اس کی زندگی میں بھی اور اس کی زندگی کے بعد بھی دینا چاہیئے۔