کلائمیٹ چینج: نوجوانوں کا کردار اور مستقبل کی ذمہ داریاں
نوجوان نسل موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ایک اہم طاقت بن سکتی ہے؛ ان کی تعلیم و تربیت، آگاہی، عملی اقدامات اور قیادت کا کردار مستقبل کی سمت متعین کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ بیرسٹر سیف

موسمیاتی تغیر ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن اس کا اثر خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں زیادہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے نوجوان نسل کا کردار کتنا ضروری ہے اس حوالے سے پشاور میں ڈائریکٹوریٹ آف یوتھ افیئرز خیبر پختونخوا اور پروگریسو کلائمیٹ فاؤنڈیشن کے اشتراک سے ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں ترجمان خیبر پختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف اور محکمہ سوشل ویلفیئر کے وزیر قاسم علی شاہ سمیت نوجوان صحافیوں اور کلائمیٹ چینج ایکسپرٹ نے شرکت کی۔
‘نوجوان نسل موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ایک اہم طاقت بن سکتی ہے؛ ان کی تعلیم و تربیت، آگاہی، عملی اقدامات اور قیادت کا کردار مستقبل کی سمت متعین کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ اگر ہم نوجوانوں کو اس مسئلے کا حصہ بنائیں تو ہم ایک بہتر، صاف ستھرا اور محفوظ مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔’ یہ کہنا تھا ترجمان خیبرپختونخوا حکومت بیرسٹر سیف کا۔
جوان مرکز حیات آباد پشاور پروگریسو کلائمیٹ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام پشاور میں ایک روزہ کلائمیٹ کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس چیلنج کو مثبت اور عملی اقدامات کے ذریعے سمجھنے اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ترجمان کے پی گورنمنٹ نے خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلوں کے لیے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ماحولیاتی پالیسیوں کی تشکیل میں نوجواںوں کے کلیدی کردار کو تسلیم کرنا ہو گا اور انہیں اس معاملے کی ذمہ داریاں لینا ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: لنڈی کوتل: نیشنل اینفلوینسرز اور یونیسف کا حفاظتی ٹیکوں کے فوائد کے حوالے سے آگاہی سیشن
پاکستان کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سیف نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ کم ہے لیکن یہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے نوجوان ماحولیاتی کارکنوں کے ساتھ تعاون اور ان کے خیالات کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری پلیٹ فارمز فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔
موسمیاتی تبدیلی سے آگاہی اور روک تھام سے متعلق خواتین کو باخبر رکھنا کتنا ضروری ہے؟
”خاتون صحافی بھی اس ضمن میں ایک اہم کردار نبھا سکتی ہے خاص کر فوکل گروپس ڈسکشن یعنی اپنے گاؤں کی دیگر خواتین کو ایک گھر میں بلا کر کلائمیٹ چینج کے حوالے سے ترغیب دی جا سکتی ہے۔” یہ کہنا تھا صحافی خالدہ نیاز کا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی سرگرمیوں سے گھریلو خواتین کو پانی کے ضیاع کی روک تھام، وہ علاقے جو سیلاب کی زد میں ہیں وہاں کی خواتین کو سیلاب سے متعلق پیشگی آگاہ کرنا حتی کے خواتین کو موسمیاتی تبدیلی کے ان پر ہونے والے اثرات سے باخبر رکھنا سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔
خالدہ نے بتایا کہ ایک سکول ٹیچر، ڈاکٹر یا وکیل ہونے کے ناطے بھی خواتین موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنا کردار بخوبی ادا کر سکتی ہیں۔ سکول میں طالبات کو موسمیاتی تغیر جیسے اہم مسلے سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ سال 2022 کے سیلاب سے ہونے والے نقصانات، گرمیوں کے دورانیے میں اضافے، جس سے ہیٹ اسٹروک جیسے خطرات لاحق ہوتے ہیں، جیسی مثالیں اور درخت لگانے کے فوائد وغیرہ وہ اہم موضوعات ہیں جو کہ ایک ٹیچر اپنے طلبہ کو آسانی سے سمجھا سکتی ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نصاب میں کلائمیٹ چینج کو شامل کیا جائے اور اساتذہ کے لیے ورکشاپس کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ اپنے سٹوڈنٹس کو آسانی سے پڑھا سکیں۔
اسی طرح، خالدہ نے مزید بتایا کہ، ایک لیڈی ڈاکٹر جس کو کلائمیٹ چینج کا علم ہو وہ اپنی مریضاؤں کو اس اہم مسلے کے حوالے سے بتا سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیٹ اسٹروک سے لے کر اس کی روک تھام کے لیے کیا کرنا چاہیے یہ سب ایک ڈاکٹر اپنی مریضہ کو سمجھا سکتی ہے۔ پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنا، کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانا ان ماحول دوست کاموں میں شامل ہیں جو خواتین ہی کر سکتی ہیں۔ ماحولیاتی آگاہی بڑھانے کے لیے کلائمیٹ کوئز، اور گیمز وغیرہ جیسی سرگرمیاں ضروری ہیں۔
نوجوانوں کی شمولیت
آگاہی اور تعلیم
نوجوانوں کی تعلیم اور آگاہی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں کلائمیٹ چینج کے حوالے سے موضوعات کو نصاب میں شامل کرنا ضروری ہے، اس سے نوجوانوں کو ابتدائی عمر سے ہی اس اہم مسلے کے بارے میں سیکھنے کا موقع ملے گا۔
سوشل میڈیا کا استعمال
سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ ہے اس لیے نوجوان سوشل میڈیا پر موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں معلومات پھیلا سکتے ہیں۔ اسی طرح معلوماتی ویڈیوز اور بلاگز کے ذریعے وہ دوسروں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اپنے علاقے پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو اجاگر کر سکتے ہیں یا ماحول دوست طرز زندگی کے بارے میں مشورے دے سکتے ہیں۔
عادات
نوجوان اپنی روزمرہ کی زندگی میں چھوٹے لیکن مؤثر اقدامات کر سکتے ہیں۔
توانائی کی بچت، بجلی اور پانی کا کم استعمال، گھر میں بجلی کے آلات کو بند کرنے سے لے کر پانی کے ضیاع کو روکنے تک، اور پلاسٹک کی اشیاء سے پرہیز اور اس کے متبادل جیسے دوبارہ قابل استعمال بوتلوں اور تھیلوں کا استعمال وغیرہ جیسے اقدامات کے ساتھ وہ ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کی کوششوں میں اپنا خاطرخواہ حصہ ڈال سکتے ہیں۔
رضاکارانہ کام: درخت لگانے، صفائی مہمات اور دیگر ماحولیاتی پروجیکٹس میں حصہ لینا۔ یہ طرزعمل نہ صرف براہ راست فائدہ پہنچاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی متاثر کرتا ہے۔
پالیسی سازی: نوجوان اپنی آواز بلند کر کے پالیسی سازوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مؤثر اقدامات کریں۔ وہ مظاہرے، پٹیشنز اور سیاسی نمائندوں سے ملاقات کے ذریعے اپنی بات پہنچا سکتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہر فرد کی شمولیت ضروری ہے، لیکن نوجوانوں کے پاس توانائی، جدت اور تبدیلی لانے کی صلاحیت ہے جو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کی آواز سننی چاہیے، ان کی کوششوں کو سراہنا چاہیے، اور انہیں وہ وسائل اور مواقع فراہم کرنے چاہئیں جن کی انہیں اس اہم مقصد کے لیے ضرورت ہے۔ ایک ساتھ مل کر ہم ایک پائیدار اور خوشحال مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں خیبر پختوںخوا کلائمیٹ چینج کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے دنیا بھر میں موسموں میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ دوسری جانب شدید موسمی واقعات میں اضافے سے خیبر پختونخوا سمیت وہ خطے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جہاں سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچہ فعال نہیں ہے۔
سال 2022 میں پاکستان میں آنے والے سیلاب میں تقریباً 1700 افراد جاں بحق ہوئے اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم مسئلے کی طرف عوام کو راغب کرنے کے لئے حکومتی سطح پراقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ماحولیاتی بحران جیسے سنگین مسئلے کو اگر ایک طرف حکومتی توجہ نہیں تو دوسری جانب نوجوانوں میں اس مسئلے کی طرف دلچسپی کا فقدان بھی ہے۔