وہ بے خبر تھے کہ یہ قضا ہے جو انہیں لیبیا کے پانیوں تک لے آئی!
جاں بحق تمام 16 مسافروں کا خیبر پختونخوا سے ہے؛ ان میں سے 13 کا تعلق پاراچنار سے، جبکہ ایک کا تعلق باجوڑ، ایک کا اورکزئی اور ایک کا تعلق پشاور سے ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ

لیبیا کے ساحل پر ڈوبنے والی کشتی میں 63 پاکستانیوں کی تصدیق ہو گئی؛ 16 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں جبکہ 10 پاکستانی اب بھی لاپتہ ہیں۔ جاں بحق تمام 16 مسافروں کا خیبر پختونخوا سے ہے؛ ان میں سے 13 کا تعلق پاراچنار سے، جبکہ ایک کا تعلق باجوڑ، ایک کا اورکزئی اور ایک کا تعلق پشاور سے ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ 63 میں سے 37 پاکستانی محفوظ رہے جن میں سے 33 پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ ایک ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔
جاں بحق افراد میں ثقلین حیدر؛ شعیب حسین، نصرت حسین، شعیب علی، سید شہزاد حسین، آصف علی، مصور حسین، شاہد حسین، اصور حسین، عابد، اشفاق حسین کا تعلق پاراچنار سے ہے۔ علاوہ ازیں باجوڑ سے سراج الدین، اورکزئی کے محمد علی شاہ اور پشاور سے انیس خان جاں بحق پاکستانیوں میں شامل ہیں۔
حادثے کا شکار یہ تمام افراد بدامنی اور غربت و بے روزگاری سے تنگ آ کر بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ بے خبر تھے کہ یہ قضا ہے جو انہیں لیبیا کے پانیوں تک لے آئی۔ لیبیا کشتی حادثے سے میں جاں بحق زخمی اور لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ان کے رشتہ دار نوجوان طویل عرصے سے لیبیا میں اس سفر کا انتظار کر رہے تھے؛ یورپ جا رہے تھے۔ یہاں کوئی لوگوں سے لاکھوں روپے قرض لے کر تو کوئی اپنی جائیدادیں بیچ کر لیبیا پہنچے تھے۔ کشتی میں سوار ہونے سے پہلے ایجنٹوں نے ان سے موبائل بھی لے لیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ظاہرکردہ آمدن سے زائد ٹرانزیکشنز کرنے والے ہو جائیں ہوشیار!
سید جواد حسین جن کے قریبی رشتہ دار اس حادثہ میں فوت ہوئے ہیں، ان کے مطابق ایجنٹ جو وعدے کرتے ہیں وقت آنے پر وہ اپنے وعدوں سے مکر جاتے ہیں اور 25 افراد کے لئے بنی کشتی میں 50، اور 50 مسافروں والی کشتی میں 100 سے زائد لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جس کے باعث اس قسم کے واقعات پیش رہے ہیں۔
سید جواد کا کہنا تھا کہ جب سے ان کے رشتہ داروں سے رابطہ ختم ہوا ہے فیملی کے لوگ سخت پریشانی سے دوچار ہیں تاہم ان کے گھر کے مردوں کو پتہ ہے کہ ان کے پیارے کس حال میں ہیں؛ بعض کو پولیس نے گرفتار کیا ہے اور بعض ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیںَ۔
سید جواد اور بشیر حسین نے بتایا کہ علاقے میں بےروزگاری اور بدامنی سے تنگ آ کر پاراچنار کے نوجوان یورپ اور دیگر مختلف ممالک کا رخ کر رہے ہیں: "اب تک پاراچنار کے 100 سے زائد شہری کشتی حادثات میں اپنی جانوں سے ہاتھ دو بیٹھے ہیں؛ متعدد تاحال لاپتہ ہیں اور کئی سالوں سے ان کی فیملیز ان کی خیریت یا مرنے کی خبر کے انتظار میں شب و روز گزار رہے ہیں۔”