بلاگز

بجلی کے برق رفتار میٹرز۔۔۔ کوئی بتلائے کہ ہم کیا کریں؟

اس سے پہلے ہمارے گھروں میں پرانے میٹرز تھے جن کا بل ریلویز والے خود ہی سیلری میں سے کاٹ لیتے تھے لیکن واپڈا کو ادائیگی نہیں ہوتی تھی لہذا ہمارے میٹرز گھر سے باہر بجلی کے کھمبوں پر سجا دیئے گئے۔

پچھلے سال واپڈا نے ہم پر احسان کرتے ہوئے میٹرز لگوانے کا مژدہ سنایا۔ اس سے پہلے ہمارے گھروں میں پرانے میٹرز تھے جن کا بل ریلویز والے خود ہی سیلری میں سے کاٹ لیتے تھے لیکن واپڈا کو ادائیگی نہیں ہوتی تھی لہذا ہمارے میٹرز گھر سے باہر بجلی کے کھمبوں پر سجا دیئے گئے۔ یہ وہ برق رفتار میٹرز ہیں جو روشنی کی رفتار سے چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سب نے بجلی کے استعمال میں احتیاط برتنی شروع کر دی۔

میٹر لگنے کے کچھ دن بعد حسب معمول صبح پونے چار بجے لوڈشیڈنگ ہوئی تو سارا دن بجلی صاحبہ نے رخ روشن نہیں دکھایا۔ پریشانی اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ پچھلے پندرہ سال سے 12 سے 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ مستقل دیکھ رہے ہیں جو ہوتی تو دو سے تین گھنٹوں کے وقفے سے ہے لیکن کبھی کبھار یہ دورانیہ 12 گھنٹے طویل بھی ہو جاتا ہے۔ یعنی پورے 12 گھنٹے تک بجلی غائب۔

بیٹے کو باہر بھیجا تو معلوم ہوا کہ کالونی میں سے 30 گھروں کے میٹرز واپڈا نے اتار لیے ہیں چنانچہ تین دن تک واپڈا آفس کے چکر لگانے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تیس میٹرز کھلے پائے گئے ہیں لہٰذا جرمانہ ہو گا جو کہ 60 ہزار سے دو لاکھ تک تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکہ: فلاڈیلفیا میں چھوٹا طیارہ گر کر تباہ، چھ افراد ہلاک

ہمارا موقف تھا کہ جب میٹرز گھر سے خاصے دور اور کھمبوں پر لگے ہیں تو کس نے کھولے اور کب کھولے ہمیں کیسے معلوم ہو گا اس لیے جرمانہ کس چیز کا بھریں۔ مگر واپڈا تو گورنمنٹ کا ادارہ ہے اس لیے اسے کسی جواز کی تو ضرورت ہی نہیں؛ اس نے کہہ دیا تو کہہ دیا۔ جن اصحاب نے ذرا اکڑ دکھائی، یا رعب جمایا اور سفارش کروائی انہوں نے 175000 اور ہم جیسے مسکینوں نے 58000 جرمانہ بھرا۔ پھر فرمان جاری ہوا کہ اب نئے میٹر کی فیس بھی دیں جو کہ 7000 تھی۔ ذرا تصور کیجئے ماہانہ بل بھی ادا کیے اور 4 ماہ کے بعد دوبارہ میٹر خریدا، وہ میٹر جسے خریدنے کے بعد ہم اس کا ماہانہ کرایہ بھی ادا کرتے ہیں، اور بلوں سے زائد جرمانہ بھی بھرا۔ اس پر مستزاد واپڈا کے جس بندے نے میٹر دوبارہ لگایا اسے بھی 500 روپے ادا کیے حالانکہ یہ اس کی ڈیوٹی تھی۔ اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی وصول کی کہ اگر اب میٹر کو کوئی نقصان پہنچا، وہ ٹوٹا یا کھلا تو جرمانہ لاکھوں میں ہو گا۔

کوئی بتلائے کہ ہم کیا کریں؟ اگر بچے کرکٹ کھیلتے ہوئے گیند مار دیں یا کوئی دشمنی دکھاتے ہوئے میٹر پر پتھر مار دے، یا واپڈا خود ہی، جیسا کہ اس بار کیا گیا، اپنا بندہ بھیج کر چیکنگ کے بہانے میٹر کھول دے تو مجرم تو ہم ٹھہرے ناں۔ بناء جرم کے سزاوار تو ہم ہوئے ناں۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ اپنے میٹر کی رکھوالی پر ایک چوکیدار بٹھا دیں یا کھمبے پر سی سی ٹی وی کیمرہ لگوا دیں۔ پہلے تو گھروں کے اندر باکسز میں میٹرز لگے ہوئے تھے۔ اب تو کھمبے پر بالکل کھلے میٹر لگے ہوئے ہیں وہ بھی گھر سے کم از کم 6-8 ہزار گز دور، جس کا دل چاہے میٹر ہی اتار کر لے جائے ہمیں تو خبر بھی نہ ہو۔

ایک ایماندار سرکاری افسر کے لیے تنخواہ میں گزارا کرنا ہی مشکل ہوتا ہے کجا کہ مہینے کے آخری دنوں میں 65000 کا ایکسٹرا خرچہ اچانک سے سر پر آن کھڑا ہو۔ چلیں ہم نے تو اس بھتے کی کسی نہ کسی طرح ادائیگی کر ہی لی مجھے تو یہ سوچ کر ہول اٹھ رہے تھے کہ بے چارے پرائیویٹ نوکری کرنے والے یا مزدور طبقے کے ساتھ ایسے شعبدے ہوتے ہوں گے تو وہ کیا کرتے ہوں گے؟ کہاں سے ہزاروں کے بل کے ساتھ لاکھوں کا جرمانہ بھی بھرتے ہوں گے۔

ان چار دنوں میں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جب بجلی نہیں تھی تو زندگی کیسے گزرتی تھی اور ہم جو اس دور کی پیداوار نہیں ہیں ان کے لیے بجلی کے بغیر سب کام رک جاتے ہیں۔ یہ تو شکر ہے ہفتہ اتوار چھٹی تھی ورنہ تو بڑی مشکل ہو جاتی کیونکہ بچوں کے یونیفارمز استری کرنا؛ مائیکرو ویو میں سالن گرم کرنا، گیس نہ ہونے کی صورت میں چائے بنانا، پانی کی موٹر چلانا، بچوں کے ہوم ورک کے لیے کمپیوٹر کا ہونا، واٹس ایپ گروپ میں اسکول کے نوٹیفیکیشن چیک کرنے اور ہوم ورک کے لیے وائی فائی چلانا، موبائل کو چارج کرنا اور سب سے بڑھ کر فریج بند ہونے کی صورت میں چیزوں کا خراب ہونا وغیر۔۔۔ مسائل کا انبار تھا۔ پاور بینکس، ایمرجنسی لائٹس، گیس سلینڈر کے سہارے یہ دن کٹ تو گئے مگر مشکل ہی کٹے۔

اب کوشش یہ ہے کہ ہر چیز کو آہستہ آہستہ سولر پینل پر شفٹ کر لیا جائے تاکہ ایسے کسی بھتے کی نوبت ہی نہ آئے۔ دیکھیے اس کوشش میں کس حد تک اور کب تک کامیابی ہوتی ہے کیونکہ خدشہ ہے جب واپڈا کا دل چاہے گا یہ گیم کھیل جائے گا اور ہمارا پلان خاک میں مل جائے گا۔ اور عین ممکن ہے سولر پینل کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگیں اور ہماری پہنچ سے دور ہو جائیں یا گورنمنٹ کو یاد آ جائے کہ عوام کو سکھ کی سانس کیوں لینے دی جائے، وہ سولر پینل بھی خرید سکتے ہیں اس لیے ان کے خریدنے، لگانے اور استعمال کرنے پر بلز بمعہ آٹھ دس ٹیکسز کے بھیج دیئے جائیں۔

کیا آپ میں سے بھی کسی کے ساتھ ایسا سانحہ ہو چکا ہے؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button