"بلیک گولڈ:” کوئلہ توانائی کا اہم زریعہ لیکن لاکھوں اموات کا سبب بھی!
مختلف تحقیقات کے مطابق دنیا بھر میں کوئلے سے پیدا فضائی آلودگی سے ہر سال تقریباً 8 لاکھ افراد موت کا شکار ہوتے ہیں، زیادہ تر اموات بھارت اور چین جیسے ممالک میں ہوتی ہیں۔
کوئلہ توانائی کا ایک ذریعہ ہے۔ توانائی یعنی بجلی کے حصول کے علاوہ اسٹیل، مختلف کیمیکلز کی تیاری، سیمینٹ، ادویات اور دیگر اشیاء بنانے کے لئے بطور ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ صدیوں سے کوئلہ کو جلانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈز کاربن مونو آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسز پیدا ہوتی ہیں جو انسانی صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں، اور ان کا برا اثر ماحول پر بھی پڑتا ہے۔ مختلف تحقیقات کے مطابق دنیا بھر میں کوئلے سے پیدا فضائی آلودگی سے ہر سال تقریباً 8 لاکھ افراد موت کا شکار ہوتے ہیں، زیادہ تر اموات بھارت اور چین جیسے ممالک میں ہوتی ہیں۔
اقوام متحدہ کوئلے کے استعمال کو کم کرنے کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس نے "کوئلے کی مہلک لت” کو ختم کرنے پر زور دیا ہے کہ بجلی کے شعبے سے کوئلے کو مرحلہ وار ختم کرنا پیرس معاہدے کے تحت 1.5 ڈگری سیلسیس کے مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ تاہم پاکستان سمیت بیشتر ممالک اب بھی کوئلہ کے استعمال پر توجہ دے رہے ہیں۔
بجلی پیداوار کے ذرائع اور ماحولیاتی آلودگی میں ان کا کردار
پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جہاں کوئلے کے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ کوئلے کے ماحول اور انسانی صحت پر برے اثرات کے حوالے سے کراچی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی راجہ محمد ثاقب نے ٹی این این کو بتایا کہ کوئلہ توانائی کا زریعہ تو ہے لیکن اس کا استعمال جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔ راجہ نے کہا کہ سندھ میں کوئلہ کے کُل ذخائر کا تخمینہ 184 ارب ٹن لگایا گیا ہے اور اس کا سب سے بڑا ذخیرہ ضلع تھرپارکر میں پایا جاتا ہے۔ کوئلے کی کانیں ضلع جامشورو میں بھی پائی جاتی ہیں۔ سندھ کول مائننگ اتھارٹی نے تھرپارکر کول مائننگ کے لئے اسے چھ مختلف بلاکس میں تقسیم کر رکھا ہے اور ان تمام بلاکس سے اِس وقت کوئلہ نکالا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اردو: میں نے قومی زبان کیسے سیکھی؟
ثاقب نے بتایا اس وقت تھر پاور پلانٹس سے 2640 میگاواٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے جو نیشنل گرڈ میں شامل کی جاتی ہے۔ اگلے مراحل میں تھرپارکر سے مزید بجلی حاصل کرنے کے لئے بھی پلانٹس لگائے جا رہے ہیں اور اس طرح یہاں سے بجلی کی پیداوار بڑھ کر مجموعی طور پر 3960 میگاواٹ تک ہو جائے گی: ”جہاں تک آبادی کا تعلق ہے تو ان دو اضلاع جامشورو اور تھرپار میں آبادی کافی کم ہے۔ ان کانوں کے اردگرد آبادیاں تو کم ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئلے سے جو آلودگی پیدا ہوتی ہے اس سے لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ صرف اسی ضلع، شہر یا ملک تک بھی محدود نہیں بلکہ بارڈر کے دونوں اطراف ہی لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔”
سال 2020 میں سامنے آنے والی ایک اسٹڈی رپورٹ کے مطابق تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں سے نکلنے والی آلودگی سے ایک لاکھ کے قریب افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔ اور اس سے پھیلنے والی آلودگی سے اگلے تیس سال میں 29 ہزار سے زائد افراد ہلاک بھی ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح وہاں آستھما یعنی دمے کے امراض میں بھی کافی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ چھوٹے بچوں میں پیدائشی سانس کے امراض سمیت شوگر اور دل کے امراض بھی آبادی میں تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان پوری دنیا کے پیدا شدہ کاربن کا محض 0.8 فی صد پیدا کر رہا ہے۔ اگر کوئلے یہ پلانٹس بھی کام شروع کر دیں تو یہ 3 فی صد سے زائد نہیں ہو گا۔
پاکستان میں سندھ کے ریگستانی علاقے ضلع تھرپارکر میں کوئلے کی دریافت کو دنیا کے 20 بڑے ذخائر میں سے ایک ہے، پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بجلی کی پیداوار کا آغاز کیا جا چکا ہے۔
کوئلے توانائی پر دارومدار کم کرنے کی حکومتی کوششیں
پاکستان نے عالمی معاہدوں کی پاسداری کے لئے مختلف اوقات میں کوئلے کو بطور توانائی استعمال کم کرنے کی یقین دہانی کی ہے۔
12 دسمبر 2020 کو پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ‘کلائمیٹ ایمبیشیس سمٹ’ سے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے توانائی کے قدرتی ذرائع پر انحصار بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے مزید پاور پلانٹس کی تنصیب نہ کرنے کا عہد کیا لیکن اس کے باوجود کوئلہ پر انحصار میں کمی نہیں آئی۔
دوسری جانب حال ہی میں وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے کہا کہ وزارت توانائی نے متعدد اقدامات کیے ہیں، اور آئندہ 10 سال کے لیے طے شدہ تمام منصوبوں کو چیلنج کیا ہے جن میں دیامر بھاشا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، نیوکلیئر پاور پروجیکٹس اور یہاں تک کہ قابل تجدید توانائی کے منصوبے شامل ہیں جو صارفین اور معیشت کے لیے ان کی فزیبلٹی کی بنیاد پر ہیں۔ دس جنوری کو اسلام آباد میں ہائیڈرو الیکٹرک پاور تقریب سے خطاب میں کہا کہ اگلے 10 سال کے لیے ’پیداواری توسیعی منصوبے‘ کے تحت 17 ہزار میگاواٹ کے بجلی گھروں میں سے صرف 87 میگاواٹ کم لاگت کے اصول پر سسٹم میں شامل ہونے کے اہل ہیں۔
اگر حکومت ان اہداف میں کامیاب ہوتی ہے تو کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس ختم کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا اور یوں انرجی کی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی کوئلے کو استعمال میں لا کر اسے مائع یا گیس میں تبدیل ک رکے توانائی حاصل کی جائے گی تاکہ کوئلے کو جلا کر توانائی حاصل نہ کرنی پڑے۔ وفاقی وزیر نے یہ بھی بتایا تھا کہ 2030 تک ملک میں پیدا ہونے والی کُل توانائی کا 60 فی صد توانائی متبادل ماحول دوست ذرائع سے حاصل کی جائے گی اور 30 فی صد گاڑیاں بجلی سے چلائی جائیں گی۔ ان کے بقول پاکستان موسمیاتی تبیدیلوں کے اثرات کم کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کررہا ہے۔
ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘الائنس فارکلائمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی’ کے اعلامیے کے مطابق یہ درست سمت میں قدم ہے جس سے پاکستان میں گرین ہاؤس گیسز یعنی ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کا اخراج کم کرنے میں مدد ملے گی۔ بی بی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق گذشہ برس مارچ تک پاکستان میں شمسی توانائی سے کل پیداوار ایک ہزار میگاواٹ تھی اور رواں برس مارچ تک یہ 1800 میگاواٹ سے زیادہ ہو چکی ہے۔
سب ہیڈنگ: کیا خیبر پختونخوا میں کوئلے کے مائنز رجسٹرڈ ہیں؟
"پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں نوے فیصد کوئلے کی مائنز غیرقانونی جبکہ باقی دس فیصد قانونی ہیں۔ اسی طرح لاکھوں مزدور ان کانوں میں کام کرتے ہیں۔” یہ کہنا تھا ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے شانگلہ مائنز ورکز ویلفیئر ایسوسی ایشن ( ساوما) کے جنرل سیکرٹری عابد یار کا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے آدھے سے زائد مزدورں کا تعلق شانگلہ سے ہے۔ پاکستان کے وجود سے پہلے بھی بلوچستان میں سرنگ اور کوئلے کی کانوں میں شانگلہ کے مزدور کام کیا کرتے تھے۔ تاہم ان کانوں میں سہولیات کے عدم فقدان کی وجہ سے آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے۔ شانگلہ کے بہت سے لوگ مر گئے اور ہزاروں لوگ معذور ہو چکے ہیں۔ کوئلے کی کان کے لیے جدید الات اور جدید مائنز نہ ہونے سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
عابد یار کے مطابق خیبر پختونخوا میں جو مائنز ہیں ان کیلئے انسپیکشن ٹیم کی تعداد بہت کم یعنی 14 ہے۔ یار نے کہا کہ کم تعداد والی ٹٰیم کیسے پورے صوبے کے ہزاروں مائنز کی نگرانی کرے گی؟ دوسری ایک وجہ ٹھیکہ دارانہ نظام ہے جس کی وجہ سے مزدوروں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
اگر دیکھا جائے تو کوئلے کی کانوں میں مختلف قسم کے زہریلے گیسز ہوتے ہیں جس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اور آلات نہیں ہوتے۔ اسی طرح فیلڈ کے ساتھ ان مزدوروں کے لیے ڈسپنسری یا طبی عملہ بھی موجود نہیں ہوتا۔
یار کے مطابق ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن مائنز کے مالک یا کسی ٹھیکدار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے تین سو سے چار سو تک مزدور اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ عابد یار نے الزام لگایا کہ متعلقہ ادارے یا حکومتی سطح پر کوئی معائنہ نہیں ہوتا اور وہ کان کے ٹھیکدار کو رشوت لے کر چھوڑ دیتے ہیں۔
یار نے مزید بتایا کہ کوئلہ بلیک گولڈ یعنی کالا سونا ہے ان سے اینٹیں، سیمنٹ، سریا اور سب سے اہم اس سے بجلی بنتی ہے۔ ملک کی معیشت کا اہم پہیہ اس سے چلتا ہے۔ ایک ٹن کوئلہ تقریباً پچاس سے ساٹھ ہزار تک بیچا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر روز ایک مائن سے دو سو سے تین سو ٹن تک کوئلہ نکالا جاتا ہے اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ان مائنز کے ساتھ بیوروکریٹ، سیاستدان اور متعلقہ ادارے کے افسران ملے ہوئے ہیں جو ان سے بےتحاشہ پیسے کماتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا مافیا ہے جبکہ حکومت کمزور نظر آتی ہے۔ پینتالیس ہزار سے ساٹھ ہزار تک کمانے والے مزدور ان کوئلے کی کانوں میں کام کرتے وقت اپنی زندگی دیتے ہیں۔
بلیک گولڈ اور انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی
خیبر پختونخوا کے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی ای پی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حبیب جان نے ٹی این این کو بتایا کہ کوئلہ کا استعمال ماحول کے لیے بہت نقصان دہ ہے کیونکہ اس سے خارج ہونے والے زہریلی گیسز کاربن مونو آکسائیڈ، اور نائٹروجن انسانی صحت اور ماحول کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہیں۔ ادارہ بار بار ان لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ کوئلہ کے استعمال سے گریز کیا جائے اور ان کے متبادل چیز استعمال کی جائے۔ اور اگر کوئلہ کا استعمال کرنا ہے تو زگ زیگ ٹیکنالوجی کو اپنایا جائے جس طرح اینٹوں کی بھٹیوں کو زگ زیگ کی طرف ٹرانسفر کیا جا رہا ہے۔ اس سے کاربن کے ذرات باہر نہیں جاتے اور یوں ماحول خراب ہونے سے بچ جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں زگ زیگ بھٹیوں پر کام جاری ہے اور اب تک اینٹوں 12 بھٹیاں زگ زیگ پر منتقل کی جا چکی ہیں۔ ڈاکٹر حبیب جان کے مطابق کوئلے سے بننے والے پلانٹس کو بند کرنا چاہیے کیونکہ ان سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں بہت خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس ہائیڈرو، پن چکی، اور شمسی تونائی سے انرجی کو پورا کرنا چاہیے۔
بلیک گولڈ اور عالمی پابندی
سال 2023 میں اقوام متحدہ نے پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی بندش سے جڑے خدشات سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے نمٹنے کے لیے توانائی کا تحفظ، ماحولیاتی اور معاشی اثرات اور بجلی پیدا کرنے کے متبادل طریقوں کے امکانات کا جائزہ ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے 11 میں سے 9 پاور پلانٹس سی پیک معاہدوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ چین نے 2021 کے بعد بیرون ملک کوئلے پر چلنے والے توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری روکنے کا اعلان کیا تھا جو کوئلے کا استعمال ترک کرنے کا اچھا موقع ہے۔ رپورٹ میں زور دیا گیا کہ ملک کو استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے 2021 کے مقابلے میں 2030 تک گرین انرجی میں سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سرمایہ بڑھانے اور اس سے دوبارہ مختص کرنے کے ساتھ ساتھ کم کاربن کا حامل ایندھن، مؤثر توانائی میں تبدیل جبکہ حیاتیاتی ایندھن میں سرمایہ کاری کم کرنے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے پاکستان کا دنیا کی مجموعی آلودگی میں حصہ بہت کم لیکن پاکستان ماحولیاتی تبدیلوں سے بہت زیادہ متاثر بھی ہو رہا ہے۔