عوام کی آوازماحولیات

ملاکنڈ کے کسان خود کو رجسٹرڈ کروانے سے گریزاں کیوں؟

ضلع میں کسانوں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ 2022 کے سیلاب سے متاثر ہونے والے کاشتکار فوری طور پر محکمہ زراعت کے پاس اپنی رجسٹریشن کروائیں۔

خیبر پختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ علاقے ملاکنڈ میں مفت بیج اور ادویات دینے کے لیے کسانوں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ 2022 کے سیلاب سے متاثر ہونے والے کاشتکار فوری طور پر محکمہ زراعت کے پاس اپنی رجسٹریشن کروائیں۔

2022 کے سیلاب میں پختونخوا کے علاقے ملاکنڈ میں لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہوئی تھی جس کی بحالی کے لیے عالمی بینک نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے ذریعے ڈیجیٹل رجسٹریشن کا عمل شروع کیا ہے جس کا مقصد کسانوں کی بیج، ادویات اور کھاد کے حصول میں مدد کرنا ہے۔

محکمہ زراعت ملاکنڈ کے ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام اللہ کا کہنا ہے کہ انہیں 32 ہزار کسانوں کی رجسٹریشن کا ٹاسک دیا گیا تھا لیکن وہ صرف 22 ہزار کو ہی رجسٹر کروا سکے۔ 10 ہزار کسانوں کی رجسٹریشن نہ کروانے کی وجہ کسانوں کی یہ غلط فہمی بتائی گئی کہ یہ رجسٹریشن سبسڈائزڈ تخم، کھاد اور ادویات کیلئے نہیں بلکہ ان سے ٹیکس وصولی کا منصوبہ ہے: "ہم انہیں مطلع کرتے ہیں کہ یہ رجسٹریشن آپ کو مفت بیج اور ادویات کی فراہمی کیلئے ہے۔ ایسا نہیں کہ کل یہ لوگ شکایت کریں گے کہ میری زمین خراب ہو گئی تھی اور ہمیں سبسڈی نہیں ملی۔ لہٰذا ان میں بیداری پیدا کرنے کے لیے، ہم نے یہ پروگرام بنایا ہے اور ہم کسانوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ مقامی حکومت کے نمائندوں کے ذریعے خود کو رجسٹر کرائیں تاکہ وہ سبسڈی کے ذریعے ملنے والے فوائد سے محروم نہ ہوں۔”

یہ بھی پڑھیں: مٹی کے چولہے کا دھواں۔۔ موت کا کنواں!

محققین کے مطابق خیبر پختونخوا میں 1 اعشاریہ 8 ملین ہیکٹر رقبے پر مختلف فصلیں اگائی جاتی ہیں جو صوبے کی عوام کی تین ماہ کی خوراک کی ضرورت پوری کرتی ہیں اور باقی نو ماہ کی خوراک دوسرے صوبوں سے پوری کرنا پڑتی ہے۔

مگر کسانوں کا ماننا ہے کہ ملاکنڈ میں آبپاشی کا نظام درہم برہم ہے اور پانی کی کمی ہے، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، وہ اچھی فصل پیدا نہیں کر سکیں گے۔

گندم کے کاشتکار رب نواز کا کہنا ہے کہ کسانوں کو نہ صرف گندم کے بیج، کھاد، یوریا اور ادویات کی ضرورت ہے بلکہ انہیں پانی کی بھی ضرورت ہے: "ہمیں ڈیموں کی ضرورت ہے، ہمارے پاس پانی ہو گا تو کسانوں کی پیداوار بہتر ہو گی۔ اگر ہمارے پاس اچھا بیج ہو اور پانی نہ ہو تو کسانوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔”

اس پراجیکٹ میں رجسٹریشن کے بعد کاشتکاروں کو مفت بیج، ادویات، کھاد اور دیگر سہولیات دی جاتی ہیں تاہم کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ جو لوگ رجسٹرڈ ہیں انہیں فوری طور پر یہ سہولتیں دی جائیں تاکہ ان کا ٹیکس نیٹ میں ڈالے جانے کا خوف ختم ہو جائے۔

گندم کے کاشتکار رحمان گل کے مطابق ان کی یہ درخواست ہے کہ وہ رجسٹرڈ شدہ 22 ہزار کسانوں کو سبسڈی دینا شروع کر دیں کیونکہ کچھ کسان ڈرتے ہیں کہ ان پر ٹیکس نہ لگ جائے: "ہمارے علاقے میں غربت ہے، انتظامیہ کسانوں کو سہولیات دینے کی کوشش کر رہی ہے، اگر ایسا ہے تو میری درخواست ہے کہ رجسٹرڈ کسانوں کو مراعات دی جائیں۔”

محققیں نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں خوراک کی پیداوار پڑوسی ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ پاکستان میں بارانی علاقوں میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 16 من ہے جبکہ نہری زمینوں پر 26 من پیداوار ہوتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بالترتیب 36 اور 37 من فی ایکڑ پیداوار ہے۔ اگر ان ممالک کی طرح ہماری بھی پیداوار بڑھی تو ہمارے پاس چھ ماہ تک کی خوراک کا ذخیرہ موجود رہے گا۔

Show More

Rifaqat ullah Razarwal

رفاقت اللہ رزڑوال چارسدہ کے رہائشی اور ٹرائیبل نیوز نیٹ کے ساتھ پشاور سے بطور رپورٹر کام کر رہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق، ماحولیات اور امن و امان کے موضوعات پر ویب اور ریڈیو کیلئے رپورٹس بنا رہے ہیں۔ صحافت کے شعبے سے 2014 سے وابستہ ہے اور انہوں نے 2018 میں پشاور یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button