16 دسمبر 1971 اور 2014: ملکی تاریخ کے دو سیاہ ترین دن
16 دسمبر 2014 کو دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول پر بزدلانہ حملہ کر کے ظلم اور جارحیت کے پہاڑ توڑے، اور سکول پرنسپل سمیت 147 معصوم جانوں کو ابدی نیند سلا دیا تھا۔ اِس سانحہ کو 10 سال گزر گئے لیکن شہدا کے ورثاء اپنے جگر گوشوں کو بھول نہیں پائے۔
سانحہ مشرقی پاکستان کو، جب ملکِ عزیز دولخت ہو گیا تھا، 53 برس، جبکہ سانحہ آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) کو، جس میں 147 سے زائد بچے شہید ہو گئے تھے؛ دس سال بیت گئے تاہم ان دونوں سانحات کا غم آج بھی تازہ ہے، بڑے بوڑھے اوع بزرگ ملک کے دولخت ہونے کو، جبکہ اے اپی ایس شہداء کی کتابیں، سکول بیگ اور دیگر اشیاء دیکھ کر اُن کے والدین آج بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔
16 دسمبر 2014 کو دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول پر بزدلانہ حملہ کر کے ظلم اور جارحیت کے پہاڑ توڑے، اور سکول پرنسپل سمیت 147 معصوم جانوں کو ابدی نیند سلا دیا تھا۔ اِس سانحہ کو 10 سال گزر گئے لیکن شہدا کے ورثاء اپنے جگر گوشوں کو بھول نہیں پائے۔
اے پی ایس جیسے واقعات دہشتگردوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف
وزیراعطم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سانحہ اے پی ایس جیسے واقعات دہشتگردوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، یہ ایک ایسا دل سوز واقعہ تھا جس کی یاد ایک دہائی سے ہمارے دلوں کو مضطرب کر رہی ہے، قوم دہشتگردوں کو کبھی اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
سانحہ اے پی ایس سے متعلق اپنے بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ اس سانحے کو خواہ کتنا ہی وقت کیوں نہ گزر جائے، ان معصوم و کم سن بچوں کی جدائی کے صدمے کو مٹا نہیں سکتا۔ ان ننھی کونپلوں نے اس دن ناقابل برداشت ظلم و بربریت کا سامنا کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ ان خاندانوں اور والدین جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس بھیانک سانحے میں کھو دیا، جن کے لخت جگر ان سے چھین لئے گئے، کے غم اور تکلیف کو کسی طور بھی کم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ”ساتویں جماعت کا طالب علم تھا جب سگریٹ نوشی شروع کی”
انہوں نے کہا کہ قوم کو یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گرد ملک دشمن گروہوں کا نہ دین سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کسی بھی معاشرتی اقدار سے؛ بیرونی ملک دشمن عناصر کی ایماء پر یہ بزدل معصوم پاکستانیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے نشانہ بناتے ہیں، پوری قوم ان بزدل دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہے اور انشاء اللہ کھڑی رہے گی:
"مجھ سمیت پوری قوم ہمارے بچوں و اساتذہ کی بہادری کو سلام، انہیں خراج عقیدت، ان کے خاندانوں کی قربانیوں اور ہماری سیکورٹی فورسز کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جوآج بھی تمام ملک دشمن عناصر سے پوری ہمت اور جواں مردی سے نبردآزما ہیں۔ آئیے آج ہم ایک پر امن اور محفوظ پاکستان کی تعمیر کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کریں، جہاں کسی معصوم کو دوبارہ اس ظلم و بربریت سے نقصان نہ پہنچے، کسی بھی بچے کو خوف کے عالم میں اسکول نہ جانا پڑے، اور ایسی کسی بھی ناانصافی کی کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ یہ ایک عہد ہے جو ہمیں مل کر کرنا ہے۔ یہ سب ہم پر اس سانحے کے متاثرین و شہداء کا قرض ہے کہ ہم سب اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی جانیں رائیگاں نہیں گئیں۔ ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہم کبھی معاف نہیں کریں گے۔”
معصوم بچوں پر حملہ گھناؤنا اور انسانیت سوز جرم، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عالمی برادری کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ صدر مملکت
سانحہ اے پی ایس کو10 برس مکمل ہونے پر اپنے پیغام میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ 16 دسمبر 2014 کے افسوسناک دن دہشت گردوں نے ہمارے بچوں اور قوم کے مستقبل پر حملہ کیا، معصوم بچوں پر حملہ گھناؤنا اور انسانیت سوز جرم ہے، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عالمی برادری کو مشترکہ طور پر کوششیں کرنا ہوں گی، آئیے دہشتگردی کے خاتمے اور پرامن پاکستان کیلئے کام کرنے کا عہد کریں۔
صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ 16 دسمبر 2014 کے افسوسناک دن دہشت گردوں نے ہمارے بچوں اور قوم کے مستقبل پر حملہ کیا، آج کے دن دہشتگردوں نے معصوم بچوں سمیت شہریوں کو سفاکیت سے قتل کیا، دہشتگردوں نے اساتذہ اور بچوں کو نشانہ بنا کر عوام دشمنی کا ثبوت دیا۔ معصوم بچوں پر حملہ گھناؤنا اور انسانیت سوز جرم ہے، سانحہ اے پی ایس سے واضح ہے کہ دہشتگردوں کا ایجنڈا ملک میں فساد اور انتشار پھیلانا ہے۔ 16 دسمبر کے دن نے ہماری قوم کی اجتماعی یادداشت پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، ہماری ہمدردیاں معصوم جانوں کے لواحقین کے ساتھ ہیں، یہ دن ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قوم کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے: "اے پی ایس حملہ ہمارے بچوں، ہمارے مستقبل اور ہمارے وجود پر حملہ تھا، سانحہ اے پی ایس جیسے واقعات دہشتگردوں اور خوارج کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں۔
صدرآصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستانی قوم دہشتگردوں کو کبھی اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دے گی، سانحہ اے پی ایس نے ہمیں دہشتگردی کے خلاف بحیثیت قوم متحد کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی قوم مصیبتوں کے سامنے ہمت نہیں ہارتی، یہ دن دہشتگردی کے خلاف متحد ہونے، اس عفریت کے مکمل خاتمے کیلئے کوششیں تیز کرنے کی یاد دلاتا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی سیاسی قیادت نے بھی قربانیاں دیں،آج ہم اپنے بہادر سپاہیوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عام شہریوں کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔”
صدرنے مزید کہا کہ اپنے بچوں، قائدین اور شہریوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، پاکستان سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی باقیات جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہوں، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے عالمی برادری کو مشترکہ طور پر کوششیں کرنا ہوں گی۔ صدر مملکت نے زور دیا کہ آئیے دہشتگردی کے خاتمے اور پرامن پاکستان کیلئے کام کرنے کا عہد کریں۔
16 دسمبر 1971: ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن
16 دسمبر 1971 ملکی تاریخ کا ایک اور سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن ہمارا مشرقی بازو ٹوٹ کر ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش کے نام سے ایک الگ ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آیا تھا۔
1970 کے عام انتخابات کے بعد صورتحال انتہائی مخدوش ہو گئی تھی جو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے باعث خانہ جنگی بدل گئی، اس صورتحال کا ہمارے ازلی دشمن بھارت نے فائدہ اٹھایا اور ہمارا ملک دولخت ہو گیا۔ سقوط ڈھاکا کو 53 برس بیت چکے ہیں تاہم اس سانحے کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔
ماضی کی تلخ یادیں قوم اور حکمرانوں کو تاریخ سے سبق سیکھنے اور دشمن کی ناپاک سازشوں کے خلاف چوکنا رہنے کی یاد دلاتی ہیں۔ سانحہ سقوط ڈھاکا کی مناسبت سے 16د سمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے تحت تقریبات اور مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔