کرم میں جنگ بندی کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ زرائع
پولیس ذرائع کے مطابق ضلع کرم میں مسافر کانوائے پر حملے اور اس کے بعد مسلح جھڑپیں 11 روز تک جاری رہیں جن میں مجموعی طور پر 131 افراد جاں بحق جبکہ 186 زخمی ہوئے۔
ضلع کرم: قبائل کے مابین خونریز جھڑپوں کے بعد اتوار کی شام ہونے والی جنگ بندی پر عمل جاری ہے جس کی اب تک کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق ضلع کرم میں مسافر کانوائے پر حملے اور اس کے بعد مسلح جھڑپیں 11 روز تک جاری رہیں جن میں مجموعی طور پر 131 افراد جاں بحق جبکہ 186 زخمی ہوئے۔
اتوار کی شام ضلعی انتظامی، پولیس، فورسز، اور قبائلی عمائدین کے تعاون سے جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ قبائل کے درمیان ہونے والی فائر بندی کے بعد اپر اور لور کرم کے تمام علاقوں میں اس کی کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: کرم کا مسئلہ دہشتگردی نہیں، بعض عناصر لوگوں میں نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔ گنڈاپور
دوسری جانب شہریوں کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے باوجود آمدورفت کے راستے تاحال بند ہیں؛ راستوں کی بندش کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات درپیش ہیں، اور پاراچنار سمیت مختلف علاقوں میں لاکھوں آبادی اشیائے خوردونوش، ایندھن اور ادویات کی قلت کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ شہریوں نے مطالبہ کیا کہ آمدورفت کے راستے کھول کر محفوظ بنائے جائیں اور عوامی ضروریات پوری کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
ادھر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے کرم میں جاری کشیدگی کا نوٹس لیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ لوگوں میں نفرتیں پھیلانے والے دہشتگرد ہیں اور ان کے ساتھ دہشتگردوں جیا سلوک کیا جائے، جبکہ شاہراہ کو کھولنے اور محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ ہیلی کاپٹر کے زریعے خوراکاور ادویات پہنچائی جائیں۔
آج 18ویں کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلی نے کہا کہ کرم کا مسئلہ دہشتگردی نہیں، بعض عناصر دو مسلکوں کے لوگوں میں نفرتیں پھیلا رہے ہیں؛ مقامی عمائدین ایسے شرپسند عناصر کی نشاندہی میں تعاون کریں، ایسے عناصر دہشتگرد ہیں اور ان کے ساتھ دہشتگردوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ کرم کے مسلئے کو پرامن انداز میں حل کرنے کے لئے زعما پر مشتمل گرینڈ جرگہ جلد ہی علاقے کا دورہ کرے گا؛ یہ جرگہ تب تک علاقے میں رہے گا جب تک وہاں مکمل امن قائم نہیں ہوتا، پائیدار امن کے لئے علاقے میں جنگ بندی انتہائی ضروری ہے۔