صحتعوام کی آواز

خیبر پختونخوا میں پولیو کیسز کے اضافے کی اصل وجوہات کیا ہے؟

محمد فہیم

پاکستان میں پولیو کیسز میں حیران کن اضافہ نے کئی سوالات کو جنم دیدیا ہے۔ تقریبا 16ماہ تک کوئی بھی کیس سامنے نہ آنے کے بعد 2022 میں پہلا کیس سامنے آیا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سال 2022 میں 20، سال 2023 میں صرف 6 تاہم سال 2024 میں اب تک 45 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

جن میں سب سے زیادہ بلوچستان میں سے 22 کیسز ہیں اسی طرح سندھ سے 12، خیبر پختونخوا سے 9 اور ایک کیس پنجاب اور اسلام آباد سے سامنے آیا ہے۔

پولیو مہم کے دوران ورکرز کو سیکیورٹی فراہمی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے،  اب تک حملوں کے دوران 50 سے زائد پولیو اہلکار اور اتنی ہی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار نشانہ بنائے جا چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پولیو ٹیموں پر حملے 2011 کے بعد سے شروع ہوئے ہیں اور تقریبا ہر دوسری اور تیسری مہم کے دوران کسی نہ کسی ضلع میں پولیو ورکرز کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس صورتحال کی وجہ سے ایک جانب پولیو ورکرز کے لئے 50 ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کی ضرورت ہوتی ہے وہیں اس مہم کو بھی دو مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے پیر کے روز سے شروع ہونے والی مہم کے دوران پانچ سال کی عمر تک کے 66 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا اورصوبے کے 33 اضلاع بنوں، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اپر، جنوبی وزیرستان لوئر، پشاور، مردان، کوہاٹ، ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویڑن کے تمام اضلاع میں پانچ سال عمر تک کے 66 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانےکا ہدف مقرر کیا گیا۔

انسداد پولیو مہم کا دوسرا مرحلہ رواں ماہ کی 11 تاریخ سے شروع کیاجائیگا۔ دوسرے مرحلے میں انتہائی حساس اور پولیو سے متاثرہ ضلع ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت میں پانچ سال عمر تک کے6 لاکھ 72 ہزار بچوں کوقطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ پولیو مہم کے دوران بچوں کو قوت مدافعت بڑھانے کیلئے وٹامن اے کی اضافی خوراک بھی دی جائے گی۔

سیکیورٹی مسائل اور والدین کی جانب سے انکار کی وجہ سے محکمہ صحت کیلئے مقرر شدہ ہدف کا حصول انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ اپنی نوکری بچانے اور کارکردگی دکھانے کیلئے متعدد اضلاع میں جعلی فنگر مارکنگ بھی ثابت ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے پورا ڈیٹا مشکوک ہوگیا ہے۔

حالیہ دنوں کے دوران وفاقی حکومت نے بھی اس حوالے سے سخت ہدایات دی ہیں جبکہ عالمی امدادی اداروں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ ہر مہم کے دوران 99 فیصد سے زائد کوریج کا دعوی کرنے کے باوجود پولیو کے کیسز میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔

اس حوالے سے شمالی وزیرستان کی مثال موجود ہے، جہاں پولیو کا کیس سامنے آنے کے بعد چھان بین کے دوران معلوم ہوا کہ ضلع میں بچوں کو انسداد پولیو قطرے نہیں پلائے گئے ہیں کیونکہ زیادہ تر کیسز میں مختلف علاقوں تک ٹیموں کی رسائی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے اسلئے پولیو ورکرز نے اپنی جان بچانے کیلئے جعلی فنگر مارکنگ کرتے ہوئے غلط ڈیٹا انٹری کردی۔

اس کے علاوہ وہ والدین جو پولیو ورکرز کو دھمکیاں دیتے ہیں مہمات کے دوران ان گھرانوں کے بچوں کی بھی رضامندی کیساتھ صرف مارکنگ کی گئی ہے۔

جس پر حکومت نے ایکشن لیتے ہوئے متعلقہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کو تبدیل کرکے ان کیخلاف انضباطی کارروائی شروع کردی ہے جس میں انہیں چارج شیٹ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب ضلع مہمند میں بھی اس قسم کی شکایات ہیں یہاں پر بھی پولیو کیس سامنے آنے کے بعد ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور متعلقہ پولیو اہلکاروں کی غفلت ثابت ہوئی جس پر متعلقہ ڈی ایچ او کیخلاف بھی کارروائی جاری ہے ۔ جن علاقوں میں کیس نہیں آئے ہیں ان اضلاع میں فی الحال جعلی فنگر مارکنگ کے حوالے سے کوئی زیادہ معلومات محکمہ صحت کے پاس موجود نہیں ہیں لیکن جن جن اضلاع میں کیسز سامنے آرہے ہیں وہاں پر پولیو سے بچاﺅ کے حفاظتی قطرے اور بنیادی ٹیکہ جات سے بچے محروم ہیں اس لئے یہ وائرس پھیل رہا ہے ۔

یاد رہے دنیا بھر میں صرف پاکستان اور افغانستان میں پولیو وائرس تشخیص ہورہا ہے چونکہ اسی ویکسین کے ذریعے پوری دنیا سے پولیو کو ختم کیا جاچکا ہے اس لئے ان ممالک میں بھی یہی ویکسین استعمال ہورہی ہے۔ جس کیلئے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت عالمی ادارہ صحت کے توسط سے ویکسین کی خریداری کرتی ہے۔

اس سلسلے میں یونیسیف اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ٹیکنیکل اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جاتی ہے باقی تمام خرچہ پاکستانی حکومت برداشت کررہی ہے۔ 1994سے گھر گھر انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔

پاکستان میں سب سے پہلے موجودہ رکن قومی اسمبلی آصفہ بھٹو زرداری کو اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلائے تھے ۔ اس کے بعد سے ہر سال دعوی کیا جاتا ہے کہ اگلا سال پاکستان کیلئے پولیو فری ہوگا لیکن ہر سال یہ توقعات شرمندہ تعبیر نہیں ہوتیں اب حال یہ ہوگیا ہے کہ پولیو ورکرز بھی تھک گئے ہیں اور والدین بھی ہر مہینے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلا پلا کر اکتا گئے ہیں ۔

Show More

Muhammad Faheem

محمد فہیم گزشتہ 16 سال سے پشاور میں صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ مقامی حکومتوں، خواتین، اقلیتوں، سیاحت، مالی اور ماحولیاتی امور سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں اور اخبار، ٹی وی، آن لائن اور ریڈیو کیساتھ منسلک ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button