کیا خواجہ سراء اب گرو کے نام سے شناختی کارڈ بنوا سکتے ہیں؟
مصباح الدین اتمانی
پاکستان میں خواجہ سراؤں کو والدین اور معاشرہ قبول نہیں کرتا جس کی وجہ سے زیادہ تر خواجہ سراء گھروں سے باہر گرو کے پاس زندگی گزارتے ہیں۔ سرپرست نہ ہونے کی وجہ سے خواجہ سراؤں کے لئے شناختی کارڈ بنوانا ایک کھٹن مرحلہ ہوتا ہے تاہم اب خواجہ سراؤں کے لئے شناختی کارڈ بنوانا قدرے آسان ہوگیا ہے۔ اب شناختی کارڈ بنوانے کے خواہشمند خواجہ سراء نادرا ریکارڈ میں خاندان کے سربراہ کے خانے میں اپنے گرو کا نام لکھ سکیں گے۔
"شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں خواجہ سراء ہر سال حق رائے دہی سمیت تمام بنیادی حقوق سے محروم رہ جاتے ہے اس لئے ہم نے یہ ضروری سمجھا کہ اس کا کوئی حل نکالے”، یہ کہنا ہے خیبر پختونخوا ٹرانس کمیونٹی کی سربراہ آرزو خان کا جس کی حال ہی میں محکمہ سماجی بہبود خیبر پختونخوا میں بطور گرو رجسٹریشن ہوئی ہے۔ نئے طریقہ کار کے تحت خیبرپختونخوا میں ایک خواجہ سراء کی رجسٹریشن کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے۔
2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں 21 ہزار 774 خواجہ سرا موجود ہیں۔ جب کہ الیکشن کمیشن کے اکتوبر 2020 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رجسٹرڈ خواجہ سراء ووٹرز کی تعداد دو ہزار 538 ہے۔ اس اعداد و شمار کے مطابق پنجاب سے 1886، سندھ سے 431، خیبر پختونخوا سے 133، بلوچستان سے 81 اور قبائیلی علاقوں سے سات ووٹرز رجسٹرڈ ہیں تاہم خیبر پختونخوا کی خواجہ سرا کمیونٹی کی سربراہ آرزو خان کا دعوی ہے کہ صرف خیبرپختونخوا میں 30 ہزار سے زیادہ خواجہ سراء موجود ہے۔
آرزو خان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین خواجہ سراؤں کو قبول نہیں کرتے، وہ ان کو گالی تصور کرتے ہیں۔ لوگوں کے طعنوں کے وجہ سے انہیں گھروں سے نکالتے ہیں اور ان سے ہر قسم کی تعلقات ختم کرتے ہیں جس کے بعد ان کو شناختی کارڈز بنانے میں مشکل پیش آتی ہے اور وہ حق رائے دہی سمیت بینک میں اکاونٹ بنانے، صحت کارڈ پر علاج کرانے کے سمیت ان تمام بنیادی حقوق سے محروم رہ جاتے ہیں جو ایک ریاست آئین کے مطابق اپنے شہریوں کو دیتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے دا حوا لور آرگنائزیشن اور محکمہ سماجی بہبود کے ساتھ مل کر اپنا نام بطور گرو رجسٹرڈ کرایا ہے جس کے بعد وہ خواجہ سراء جو خاندان کی عدم تعاون کی وجہ سے شناختی کارڈ نہیں بنا سکتے وہ نادرا میں گرو کو بطور سربراہ لکھ سکیں گے جس سے خواجہ سراوں کی رجسٹریشن میں تیزی آئے گی۔
خواجہ سراء کن دو طریقوں سے شناختی کارڈ بنوا سکتے ہیں؟
اس عمل کی تکمیل کے بعد خواجہ سراء دو طریقوں سے شناختی کارڈ وصول کر سکیں گے، پہلا یہ کہ ان کے پاس والدین کا شناختی کارڈ ہو اور بھائی بہن میں سے ایک اس کی تصدیق کریں۔
دوسرا طریقہ کار یہ ہے کہ بطور گرو رجسٹریشن کے لئے ایک خواجہ سراء اپنے چیلوں کے نام لکھ کر ایک حلف نامہ اور دوسرے ضروری کاغذات محکمہ سماجی بہبود میں جمع کراتے ہے۔ جہاں سے وہ نادرا میں بھیجے جاتے ہے، نادرا اس کو چھان بین کے لئے زونل دفتر بھیجتے ہیں جہاں سے تصدیق کے بعد جس کے ان کی بطور گرو رجسٹریشن مکمل ہو جاتی ہے۔
شہوانا شاہ "دا ہوا لور آرگنائیشن” کی چیئر پرسن ہے اور وہ خواجہ سراوں کی حقوق کے لئے کئی سالوں سے کام کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ نئے طریقہ کار کے مطابق رجسٹرڈ گرو کے سٹوڈنٹس یا چیلوں کو شناختی کے حصول کے لئے والدین کے شناختی کارڈ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ وہ نادرا ریکارڈ میں رجسٹرڈ گرو کو بطور گھر کا سربراہ لکھ سکیں گے۔
"یہ آیک اسان عمل ہے اور اچھے طریقے سے ہو سکتا ہے کیونکہ زیادہ تر خواجہ سراء اپنے گرو کے ساتھ رہتے ہیں، اس سے خوجہ سراؤں کے شناختی کارڈ بنانے کے عمل میں تیزی آئے گی اور وہ انتخابی عمل میں حصہ لے سکیں گے” شہوانا شاہ نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ نئی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 30000 خواجہ سراء رجسٹرڈ ہے، لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف ہے، صرف پشاور میں 7000 سے زیادہ خواجہ سراء موجود ہے لیکن پیچیدہ عمل کی وجہ سے وہ نادرا میں اندراج سے محروم ہے، ان کا اندراج ہوا تو یہ ووٹنگ کے عمل میں حصہ لے سکیں گے اور سیاسی عمل میں ان کی تعداد بڑھ جائیں گی۔
محکمہ سماجی بہبود کے نوٹیفیکشن کے مطابق خیبرپختونخوا میں اب تک دو خواجہ سرا آرزو خان اور فرزانہ ریاض کو بطور گرو رجسٹرد کیا گیا ہے۔ نوٹیفیکشن کے مطابق گرو نادرا اور الیکشن کمیشن کے ووٹرز لسٹ میں خواجہ سراوں کے رجسٹریشن میں اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔
اکاونٹ نہ ہونے کی وجہ سے سلمہ کے لاکھوں پیسے چوری ہوگئے
48 سالہ خواجہ سراء سلیم عرف سلمہ شاہ کا تعلق کوئٹہ سے ہے لیکن وہ بچپن سے پشاور میں رہائش پزیر ہے۔ وہ اپنے گھر اور والدین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ کہتے ہیں کہ "میں چھوٹا تھا جب پشاور منتقل ہوا، یہاں پشاور میں، میں نے خواجہ سراؤں کے ایک ڈیرے میں رہائش اختیار کی میں نے لاکھوں روپے جمع کئے لیکن بینک اکاونٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ چوری ہو گئے۔” سلمہ نے بتایا۔
سلیم عرف سلمہ شاہ کی عمر اب ناچنے کی نہیں ہے اور نہ ہی وہ پیسے کما سکتے ہے، لیکن وہ اب اپنے پاس موجود رقم بچانے کے لیے بینک اکاونٹ کا سوچ رہے ہیں تاہم شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔
خواجہ سراوں کے شناختی کارڈ کیوں نہیں ہوتے؟
سلیم نے بتایا کہ طعنوں کی وجہ سے گھر چھوڑا تھا۔ دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے شادی بیاہ میں ناچتی تھی جس کے بعد گھر والوں نے ان سے لاتعلقی اختیار کی۔ انہوں نے کہا کہ اکثر خواجہ سراؤں کو گھر والے غیرت کے نام پر قتل کرتے ہیں۔ لیکن یہاں شناختی کارڈ بنانے کے لئے گھر کے کسی سربراہ کا شناختی کارڈ ہونا ضروری ہے، جس کا حصول خواجہ سراؤں کے لئے انتہائی مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے شناختی کارڈ نہیں بنتے۔
تاہم سلیم عرف سلمہ شاہ اب نئے طریقہ کار کے مطابق شناختی کارڈ بنا رہے ہیں، جس میں رجسٹرڈ "گرو” کو بطور سربراہ لکھا جائے گا، وہ پرامید ہے کہ جلد ان کا شناختی کارڈ بن جائے گا جس کے بعد وہ آسانی سے بینک میں اکاونٹ کھول سکیں گے۔
ترجمان نادرا کے مطابق نئی پالیسی سے ان خواجہ سراؤں کو قومی دھارے میں لانا ہے جن کی ولدیت اس سے قبل نا معلوم تھی اور اسی وجہ سے انہیں نادرا میں رجسٹر ہونے کیلئے مشکلات کا سامنا تھا، انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے متعلق یہ پالیسی اس حکم کی تعمیل کی روشنی میں وضع کی تھی جس کے تحت سپریم کورٹ نے 2009 میں نادرا کو حکم دیا تھا کہ وہ خواجہ سراؤں کو ان کی خواہش کے مطابق صنف کے ساتھ نادرا ڈیٹا بیس میں رجسٹرڈ کرنے سے متعلق پالیسی وضع کرے۔
گرو کا نام بطور سربراہ لکھنا قانونی طور پر ٹھیک ہے؟
جب یہ سوال ہم نے پشاور ہائیکورٹ کی وکیل عائشہ خورشید سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے احکامات کی روشنی میں یہ عمل قانون کے مطابق کیا جا رہا ہے لیکن آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانونی طور پر محکمہ سماجی بہبود خیبرپختونخوا کے نوٹیفیکشن کے بعد گرو کو چاہیئے تھا کہ وہ چھان بین کے لئے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں ضروری کاغذات جمع کرواتے تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے نادرا سسٹم میں ان کا بطور گرو اندارج تاخیر کا شکار ہوا اور اس وجہ سے ان خواجہ سراؤں کو کارڈز بنانے میں مشکلات ہے جو گرو کو بطور سربراہ لکھنا چاہتے ہیں۔
شہوانا شاہ کا کہنا ہے کہ وہ خواجہ سرا کمیونٹی سمیت مختلف محکموں کے ساتھ رابطے میں ہے اور کوشش کر رہی ہیں کہ ان گرو کی نادرا میں رجسٹریشن کا عمل جلد سے جلد مکمل ہو جائے جس کے بعد ان کے چلے اور سٹوڈنٹس آسانی سے شناختی کارڈز بنا سکیں گے۔