سٹیزن جرنلزمعوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

ضلع مردان کے بیشتر خواجہ سرا شناختی کارڈ کے حق سے آخر محروم کیوں ہیں؟

رعناز

"اگر میرے کسی بھی بیٹے نے اس کے لیے شناختی کارڈ بنایا تو وہ پھر میرا بیٹا نہیں ہوگا "یہ کہنا تھا دیر تلاش سے تعلق رکھنے والے خواجہ سرا جابر عرف الو چہ کے والد کا۔  30 سالہ جابرکا کہنا ہے کہ میرا شناختی کارڈ ابھی تک نہیں بنا۔

وجوہات پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میں نے تقریبا چار سے پانچ دفعہ اپنے والد اور بھائیوں سے رابطہ کیا کہ میرا شناختی کارڈ بنوائیں مگر ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم آپ کا شناختی کارڈ بنوائیں گے تو پھر آپ ہم سے جائیداد میں حصہ بھی مانگیں گے۔ جابر عرف الوچہ نے مزید بتایا کہ تین دفعہ میرے والد اور میرے بھائیوں نے مجھے مار پیٹ کر گھر میں قید کر دیا تھا تاکہ میں اپنا شناختی کارڈ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکوں ان کے مطابق اب یہ اپنے علاقے دیر سے بھاگ کر مردان میں اپنے گروں کے پاس رہتا ہے۔

یہ معاملہ صرف ایک خواجہ سرا کا نہیں ہے بلکہ مردان میں ایسے بہت سارے خواجہ سرا ہے جن کے شناختی کارڈ نہیں بنے۔

خواجہ سرا شہاب الدین عرف وفا  کی عمر 22 سال ہے ۔ شہاب الدین عرف وفا نے بتایا کہ میں مردان میں اپنے گرو کے ساتھ رہتی ہوں کیونکہ میرے خاندان والے ان کے گھر پر ہونے کی وجہ سے شرم محسوس کرتے ہیں۔ وفا کہہ رہی تھی کہ خاندان میں کوئی بھی ان کا شناختی کارڈ بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

وفا نے بتایا کہ بغیر شناختی کارڈ کے ہماری زندگی ادھوری ہے۔ اگر ہم کسی پروگرام کے لیے جاتے ہیں تو ہمیں کوئی بھی پیسے نہیں دیتا۔ ہمیں صرف ذلت اور رسوائی ہی نصیب ہوتی ہے۔ شناختی کارڈ کے بغیر ہمارا بینک اکاؤنٹ نہیں بن سکتا۔ ہم باہر ملک سفر نہیں کر سکتے۔ ہماری اس بات کو کوئی بھی اہمیت نہیں دیتا۔

رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت پاکستان انفارمیشن کمیشن نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ مردان میں 1300 خواجہ سرا موجود ہے جس میں صرف 100خواجہ سراؤ کا شناختی کارڈ بن چکا ہے اور وہ نادرہ میں رجسٹرڈ ہے باقی آدھے سے زیادہ خواجہ سرا شناختی کارڈ کے حق سے محروم ہیں۔

ڈسٹرکٹ مردان کے30 سالہ گرو ں انمول نے بتایا کہ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے خواجہ سراؤں کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انمول نے بتایا کہ سب سے پہلا مسئلہ تو نادرہ سے آتا ہے ۔جب خواجہ سرا نادرا آفس جاتے ہیں تو پہلے تو ان کی بات نہیں سنی جاتی اور اگر بات سنی بھی جاتی ہے تو انہیں اس چیز پر ٹارچر کیا جاتا ہے کہ آپ میل ہے یا فی میل؟ یا آپ ایکس کارڈ کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ 2018 کے ایکٹ کے تحت خواجہ سرا کو ایکس کی نشانی دی گئی ہے۔ جیسے کہ میل کے لیے ایم اور فیمیل کے لیے ایف استعمال ہوتا ہے اسی طرح خواجہ سرا کے لیے ایکس استعمال کیا جاتا ہے جس سے ان کی پہچان ہو سکتی ہے۔

انمول میں مزید بتایا کہ نادرا آفس میں لوگ ہمیں طرح طرح کی باتوں سے تنگ کرتے ہیں۔ اگر ہم عورتوں کی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ آپ کی جگہ نہیں ہے ۔ اگر مردوں کی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں تو وہ اپنی غلط حرکتوں سے ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم واپسی کر لے۔

کوئی ہمیں ٹچ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی ہمیں ملنے کا کہتا ہے۔ کوئی ہمیں گالیاں دینے میں مصروف ہوتا ہے تو کوئی نمبر لینے کے چکر میں ہوتا ہے۔ انمول نے مزید بتایا کہ ان سے غیر اخلاقی اور غیر اسلامی گفتگو کی جاتی ہے ۔ نہ صرف نادراکے  اندر نہیں بلکہ نادرا سے باہر یعنی عام معاشرے میں بھی ہمیں طرح طرح کے مسائل پیش آتے ہیں۔

اگر ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں اور پولیس ہمارا شناختی کارڈ چیک کر تی ہیں تو ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ اپ تو خواجہ سرا ہو تو کارڈ میں فیمیل کیوں ہے؟ ایکس کیوں نہیں ہے ؟ اگر ایکس کارڈ بناتے ہیں تو گھر والے کہتے ہیں  کی اس سے ہمیں شرمندگی ہوگی ۔ اس کے علاوہ اگر ہم ہسپتال جاتے ہیں تو ادھر بھی ہمارے علاج کو کوئی بھی ڈاکٹر ترجیح نہیں دیتا۔ نہ ہمیں کوئی فیمیل کی وارڈ میں چھوڑتا ہے اور نہ کوئی میل کی وارڈ میں۔

اگر کسی پروگرام میں کسی خواجہ سرا کو گولی لگ جاتی ہے اور اسے ہسپتال پہنچایا جاتا ہے تو بجائے اس کا بلڈ رکوانے کے  اس سے یہ سوالات کیے جاتے ہیں کہ پروگرام کے لیے کیوں گئے ؟ جانے سے پہلے  پولیس سے اجازت کیوں نہیں لی؟

گروں کا مزید کہنا  یہ تھا کہ اگر ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو ہمارے پیچھے مختلف لوگوں کو لگایا جاتا ہے جو کہ ہمیں مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

خواجہ سرا کے شناختی کارڈز کے حوالے سے نصرت آرا سے بات کی، جو کہ پچھلے 35 سال سے سوشل ایکٹیوسٹ کے طور پر عوام کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہے اور مردان سے تعلق رکھتی ہے۔

نصرت آرا  وومن ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کی چیئر پرسن ہے۔ نصرت آرا نے خواجہ سراؤ کے لیے بہت کام کیا ہے جس میں ایک اہم کام ان کا شناختی کارڈ بنوانا بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے انفرادی طور پر اور مختلف اداروں کے ساتھ مل کر خواجہ سراؤ کے شناختی کارڈز پر بہت زیادہ کام کیا ہے۔ خواجہ سرا کا جنڈر معلوم کرنے کے لیے  ہم ان کا میڈیکل چیک اپ کرواتے تھے ۔ میڈیکل چیک اپ کے بعد پھر وہ رپورٹ ہم سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے پاس لے کے جاتے تھے اور ان کے دستخط کے بعد پھر اس خواجہ سرا کو نادرا کے آفس لے کے جاتے تاکہ ان کا شناختی کارڈ بن سکے۔ ان کا مزید کہنا یہ تھا کہ ہم اپنے سیشنز میں خواجہ سرا، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور نادررا والوں کو ایک ساتھ بلا لیتے تاکہ یہ ایک ساتھ بیٹھ کے خواجہ سراؤ کے شناختی کارڈز کے مسئلے کو حل کر سکیں۔

خواجہ سراؤ کے شناختی کارڈز بنانے کا اصل طریقہ کار جاننے کے لیے  ہم نے مردان نادرا آفس کے ایگزیکٹو سلطان سے بات کی۔ سلطان نے بتایا کہ ایک خواجہ سرا جب اپنا شناختی کارڈ بنوانا چاہتا ہے تو وہ اپنے والدین میں سے ایک کو اپنے ساتھ نادرا آفس لے کے آئے گا۔ اس کے علاوہ جو ڈاکومنٹس ہیں جیسے کہ فارم ب، ڈومسائل، میٹرک سرٹیفیکیٹ وغیرہ ضروری ہے ۔مزید انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی خواجہ سرا یہ کہہ رہا ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہتا تو اس کیس میں اسے اپنے ساتھ اپنے گرو کو لے کے آنا ہوگا تاکہ وہ اس بات کی تصدیق کرے کہ یہ خواجہ سرا ہے ۔ اس طریقے سے ان کی شناختی کارڈ بن جاتی ہے۔

خواجہ سراؤ کی پروونشل پریزیڈنٹ فرزانہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شناختی کارڈ ایک شہری کی پہچان اور ضرورت ہے مگر افسوس کے ہمارے خواجہ سرا کمیونٹی اس حق سے محروم ہے ۔فرزانہ نے مزید بتایا کہ میں خود خواجہ سراوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہوں۔ میری کوشش ہے کہ اپنے خواجہ سراؤں کو ان کے حقوق دینے میں ان کی مدد کروں کیونکہ معاشرے میں کوئی بھی ان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے یہاں تک کہ ان کا اپنا خاندان بھی نہیں۔

اتنی مشکلات کے بعد کچھ ایسے خواجہ سرا بھی ہے جو کہ اپنا شناختی کارڈ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کے باقی خواجہ سراؤں کو بھی شناختی کارڈ کی اصولی کا حق ملے۔

"میرا شناختی کارڈ بن چکا ہے اور میں عمرے کی سعادت بھی حاصل کر چکا ہوں "یہ کہنا تھا خواجہ سرا شہاب الدین عرف کیترین کا۔ کیترین 2017 سے ایک سینٹر چلا رہی ہے جس میں وہ مختلف خواجہ سراؤں کو ٹیلرنگ، بیوٹیشن اور ایمازون کے کورسز مفت کرواتی ہے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ میرا شناختی کارڈ اس وقت میری امی نے بنایا تھا جب میں اپنے گھر میں رہتی تھی ۔

مردان سے تعلق رکھنے والے ایک اور خواجہ سرا عبدالغفار عرف علیشہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میرا شناختی کارڈ بھی بن چکا ہے ۔علیشہ کا کہنا تھا کہ جب میں اپنا شناختی کارڈ بنا رہی تھی تو میرے بھائی نے کہا کہ تم مجھے 50 ہزار روپے دو تب ہی میں دستخط کروں گا ۔میرے 50 ہزار دینے پر میرا شناختی کارڈ بن گیا جس کی بنا پر اب زندگی میں تھوڑی سی آسانی پیدا ہو گئی ہے ۔اگر میں اپنا بینک اکاؤنٹ بنانا چاہوں تو بنا سکتی ہوں۔ اگر ایک ڈسٹرکٹ سے دوسرے ڈسٹرکٹ سفر کروں تو مجھے چیک پوسٹ پر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا یہاں تک کہ باہر ملک بھی سفر کرنا اب ممکن ہے۔

Show More

Raynaz

رعناز ایک ڈیجیٹل رپورٹر اور بلاگر ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button