دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی عوام ٹیکس کو برداشت نہ کر پائیں گے
شاہ نواز آفریدی
قبائلی اضلاع میں لاکھوں عوام گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی اور امن و امان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے مسلسل نقصانات اور تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں لاکھوں خاندان ایک دہائی تک اپنے علاقوں کو چھوڑ کر اپنے ملک میں مہاجرین رہ رہے تھے اور تاحال بھی بہت سے اسی صورتحال سے دو چار ہیں۔ ان تمام کو تو قبائلیوں نے برداشت کر لیا اور کر رہے ہیں مگر اس سے زیادہ خطرناک صورتحال اب ٹیکس کے نفاذ کی شکل میں ہو رہا ہے جس کی مثال ایسی ہیں کہ مہینوں وینٹی لیٹر پر پڑے مریض کو کوئی کہے کہ آپ اٹھ کر آٹے کا ٹرک لوڈ کر لو۔
یہ باتیں ضلع خیبر میں انجمن تاجران باڑہ کے چیئرمین سید ایاز وزیر نے ایک خصوصی گفتگو میں کہی۔ انہوں نے بتایا کہ مشہور باڑہ بازار آمن و امان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے تقریباً سات سال مسلسل تک بند رہا اور اب کھلنے کے بعد دوبارہ بھی مکمل طور پر واپس اپنی جگہ نہیں آیا۔ یعنی تقریبا 13 ہزار تک کاروباری یونٹس میں اب تک کم و بیش 7 ہزار تک یونٹس فعال ہوگئے ہیں جو زیادہ تر سڑک کے کنارے ہیں۔ تاہم اب بھی اندر کی بہت سی مارکیٹیں غیر آباد ہیں۔ ایسے حالات میں جب تاجروں نے دوبارہ شروع سے کام کا آغاز کرنے کے لیے خواتین کا سونا اور دیگر قیمتی اشیاء فروخت کرکے کاروبار شروع کیا ہے اور ایسے میں ٹیکس کا نفاذ ہو جائے تو یہ بہت ہی خطرناک ہوگا اور قبائلی تاجر بشمول عوام اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں اور اس کا بھر پور انداز میں مخالفت کرکے مزاحمت کی جائے گی۔
حکومت کی جانب سے ٹیکس کے نفاذ کے اعلان پر فاٹا سٹیل انڈسٹری کے صدر اسلم آفریدی نے ٹی این این کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ سبزی، پھل، تعمیراتی میٹریل اور دیگر ضروریات زندگی کی آشیا پر قبائلی اضلاع کے عوام ان ڈائریکٹ ٹیکس تو پہلے سے دے رہی ہیں مگر اب ٹیکس کی نیٹ میں لانے کے بعد یہاں پر دیگر سماجی معاملات پر بھی اثر انداز ہوگا جیسا کہ جائیداد پر ٹیکس لگنے کے بعد یہاں پر 90 فیصد جائیدادیں مشترکہ ہیں اور دیگر زمینیں بھی تقسیم ہوئی ہیں اور نہ ہی ان کا لینڈ ریکارڈ موجود ہے جس سے مزید پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔ اسلم آفریدی نے دیگر صنعتوں وغیرہ پر بات کرتے ہوئے کہا جہاں پر پہلے سے موجود کارخانے جو مختلف وجوہات کی بنا پر پروڈکشن میں کمی کی وجہ سے مالی نقصانات کی شکار ہیں۔ اب اس کے خام مال پر ٹیکس، ایمپورٹ و ایکسپورٹ، زراعت، دکانوں، پٹرول پمپس اور طب سے منسلک یونٹس سمیت بینک سے رقم نکالنے پر ٹیکس لگنے سے قبائلی اضلاع کی کمزور معیشت مزید بیٹھ جائے گی۔
قبائلی اضلاع کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے بارے جمرود تاجر یونین کے صدر کاشف اقبال نے کہا ہے کہ متاثرہ اور ترقی پذیر قبائلی اضلاع کو 75 سال بعد اب جب ٹیکس نیٹ میں لایا جائیگا تو ایف بی آر ہر چیز پر ٹیکس لے گا۔ اس میں دو ہولڈنگ ٹیکس اور سیل ٹیکس شامل ہیں جوکہ دکانوں، مکانات، معدنیات ، کارخانہ جات، خام و تیار شدہ مال پر ٹیکس لاگو ہو جائے گا۔ اشیاء کی خریدوفروخت پر بھی ٹیکس لگ جائے گا اور نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ختم ہو جائے گی۔ مالاکنڈ ڈویژن کو حکومت ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا چاہتے ہیں جس کے ساتھ 1969 میں ٹیکس نہ لگانے کے معاہدے ہوئے ہیں اور اب تک ٹیکس سے مستثنی ہے۔
انجمن تاجران باڑہ کے چیئرمین سید ایاز وزیر اور تیراہ انصاف تاجر ایسوسی ایشن نے قبائلی اضلاع کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے بارے کہا ہے ہم اس کے خلاف ہر طرح کی قانونی جنگ لڑے گے اور اگر ضرورت پڑی تو احتجاج کرکے پاک افغان شاہراہ کو بھی نا معلوم وقت کے لیے بند کرینگے۔ کیونکہ ان اضلاع کے تاجروں نے اپنے خواتین کے زیورات بیچ کر کاروبار شروع کیا ہے اور جو کاروباری پہلے زکوٰۃ دیتے تھے اب ان میں بیشتر زکوٰۃ لینے کے مستحق بن چکے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر برائے ماحولیات و جے یو آئی کے مرکزی رہنما حمیداللہ جان آفریدی نے قبائلی علاقوں پر ٹیکس لاگو کرنے کے بارے ٹی این این کو بتایا کہ کمزور معاشی حالات اور بے روزگار قبائلی اس حالت میں ٹیکس دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور ٹیکس لاگو کرنے سے یہاں پہلے سے بے روزگاری کی وجہ سے انتہا پسندی میں اضافہ ہوگا جوکہ ماضی میں اسی بے روزگاری کی وجہ سے تھا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا انضمام غیر آئینی طریقے سے ہوا ہے تو اوپر سے ٹیکس لگانا بہت ہی نا مناسب ہے اور اس سلسلے میں عنقریب ہم صدر پاکستان سے ملاقات کرکے تمام خدشات سامنے رکھے گے۔ ایک سوال کے جواب میں حمید اللہ جان آفریدی نے کہا کہ حکومت فاٹا میں پہلے سالانہ ایک سو دس ارب روپے لگا دیتی پھر ٹیکس لاگو کرنے کا انتظام کرتی۔ انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ قبائلی اضلاع میں کارخانہ دار افغان حکومت کے ساتھ بات کرکے یہاں سے کارخانے افغانستان منتقل کرنے کے بارے سوچ رہے ہیں۔