سوشل میڈیا کا بونچھال
سندس بہروز
سوشل میڈیا کی آمد نے ہماری زندگیوں کو نہ صرف بدل ڈالا بلکہ ہماری زندگیوں میں بونچھال مچا دی۔ اس کی آمد سے پہلے ہم بڑے سادہ لوگ ہوا کرتے تھے۔ زندگی میں سکون ہی سکون تھا۔ ہماری زندگی اب ایک ٹچ کی محتاج ہو گئی ہیں۔ سوشل میڈیا کی چمک دمک نے ہماری زندگی کے رنگوں کو پھیکا کر دیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والی مثالی زندگی نے ہماری زندگیوں کو بے سکون کر دیا ہے اور ہم ہر وقت اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کیسے ہماری زندگی سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والی لوگوں کی طرح ہو جائے جو کہ ناممکن ہے۔
سوشل میڈیا کا ہماری زندگیوں پر برا اثر یہاں ختم نہیں ہوتا۔ جب سے لوگوں نے سوشل میڈیا اور سماجی رابطوں کے ذریعے سے کمانا شروع کیا ہے تب سے حالات اور بھی خراب ہو گئے ہیں۔ پیسے کمانے اور شہرت کی لالچ میں لوگ سوشل میڈیا پر کچھ بھی پوسٹ کر دیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کا ان کی زندگیوں پر اور دیکھنے والوں کی زندگیوں پر کیا اثر ہوگا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ پشاور میں کیوٹ مانو نامی ایک ٹک ٹاکر کے ساتھ پیش آیا۔ یہ خاتون ٹک ٹاک پر اپنی ویڈیوز کیوٹ مانو کے نام سے ڈالتی ہیں اور ان کے کافی فالوورز بھی ہیں۔ پچھلے دنوں ان کی ایک نازیبا ویڈیو وائرل ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں ہلچل مچ گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی یہ ویڈیو ان کی بھانجی کے ذریعے سے انٹرنیٹ پر پھیلی ہے۔ غصے میں آکر انہوں نے اپنی بھانجی کی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی جس سے ان کی بھانجی کا رشتہ ٹوٹ گیا اور ان کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوٹ مانو کی بہن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ اور ان کی بیٹیاں اس بات سے لاعلم ہے کہ ویڈیو انٹرنیٹ پر کس نے ڈالی اور وہ یہ بات کیوٹ مانو کو بتا بھی چکے ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے ان کی بیٹی کی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال کر اس کی زندگی تباہ کر دی۔
چونکہ کیس ہو چکا ہے اس لیے یہ تو معلوم ہو جائے گا کہ ویڈیو انٹرنیٹ پر کس نے ڈالی مگر یہاں کیوٹ مانو نے بے وقوفی کا مظاہرہ کیا اور اپنی بھانجی کی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی۔
میری اس بلاگ کو لکھنے کا مقصد ذرا مختلف ہے۔ وہ یہ کہ ہم سب کو آج کل کے حالات کا پتہ ہے کہ کس طرح ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دیتے ہیں اور ضروری نہیں کہ یہ قصداً کیا جائے۔ موبائل چوری آج کل ایک عام بات ہے۔ اور سب کو پتہ ہے کہ اب ایسے سافٹ ویئر آچکے ہیں جس کی وجہ سے موبائل کا ڈیلیٹ کردہ ڈیٹا بھی واپس ریسٹور کیا جا سکتا ہے اس لئے جب موبائل چور موبائل بیچتے ہیں تو ان سافٹویئر کے ذریعے سے وہ تصاویر واپس موبائل میں آسکتے ہے اور وائرل کیے جا سکتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اکثر ہم اپنے موبائل بچوں کو تھما دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک غلط ٹچ ہونے پر لا علمی میں بھی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہو جاتی ہیں۔ میرا یہ سب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ موبائل میں ایسی تصاویر اور ویڈیوز رکھے ہی کیوں جائیں جو بعد میں جا کر مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔
ہر چیز کے برے اور اچھے اثرات ہوتے ہیں۔ جس طرح سوشل میڈیا اور سماجی رابطوں کے ذریعے سے لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا ہو رہی ہے تو دوسری طرف ان کی غلط استعمال سے لوگوں کی زندگیاں تباہ بھی ہو رہی ہے لیکن احتیاط ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہمیں خود ہی اس کی برے اثرات سے خود کو محفوظ کرنا ہے۔
آپ کو کیا لگتا ہے؟
سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔