فپواسا کا یونیورسٹیز میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے صوبائی حکومت کو ڈیڈلائن
آفتاب مہمند
فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا نے صوبے کے 24 جامعات میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کا معاملہ دس دن میں حل کرنے کا مطالبہ کردیا۔ فپواسا نے جامعات کا خسارہ ختم کرنے کیلئے معقول بجٹ مختص کرنا، جامعات ملازمین کو تنخواہوں کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو 15 مئی تک کی ڈیڈ لائن دے دی۔
پشاور کے انجینئرنگ یونیورسٹی میں واقع ایوٹا ہال میں فپواسا کے صوبائی جنرل باڈی اجلاس کے موقع پر ٹی این این کیساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صوبائی صدر فپواسا پروفیسر ڈاکٹر فیروز شاہ، جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ظفر و دیگر عہدیداروں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال سے خیبر پختونخوا کے 34 میں سے 24 جامعات مستقل وائس چانسلرز کے بغیر چل رہی ہیں جنکی تعیناتیوں میں غیر ضروری تاخیر کی جارہی ہے۔ جامعات کے بجٹنگ، فناس سمیت کئی ایسے معاملات ہوتے ہیں جنکے لئے مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی ہی حل ہے۔ پرو وائس چانسلرز کی تعیناتی کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ صوبے کے کئی جامعات میں تو پرو وائس چانسلرز بھی تعینات نہیں۔
اگلے مالی سال کے بجٹ میں جامعات کا بجٹ بغیر وائس چانسلرز کا کیسے بنے گا؟ خیبر پختونخوا کے تمام جامعات پہلے سے اربوں کے خسارے میں ہیں۔ فپواسا کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ موجودہ صوبائی حکومت یونیورسٹیز ایکٹ میں ترامیم کرانے جا رہی ہے۔ فپواسا اسکو مسترد کرتی ہے جیساکہ اس وقت ایک تو اکثریتی جامعات میں مستقل وائس چانسلرز تعینات نہیں۔ دوسرا یہ کہ صوبائی حکومت متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لے رہی۔ یونیورسٹی اساتذہ ایکٹ میں ترامیم کے بالکل بھی خلاف نہیں، لیکن یہ مناسب وقت نہیں۔ فپواسا صوبائی حکومت کو پہلے سے ایکٹ میں ترامیم کرانے کیلئے تجاویز دے چکی ہے لہذا انکو اعتماد میں لیکر انکے تیار کردہ تجاویز کو بھی زیر غور لایا جائے۔
گزشتہ دو ماہ سے بعض جامعات کے اساتذہ کو تنخواہیں نہیں مل رہی، اسی طرح تمام جامعات کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ سندھ حکومت نے جامعات کیلئے 27 ارب روپے کا گرانٹ دیا۔ ہمارے ہاں توجہ ہٹانے کیلئے ایکٹ میں ترامیم کی جارہی ہے۔ صوبائی حکومت ایکٹ میں ترامیم کرانے کی بجائے اٹھارویں ترمیم کے تحت پنجاب و سندھ کیطرح صوبائی سطح پر ایچ ای سی کیلئے کوششیں کریں تاکہ جامعات کے مسائل کو وہ دیکھیں۔
ڈاکٹر فیروز شاہ و دیگر کا کہنا تھا کہ صوبے میں نئے جامعات بنائے گئے، پرانے شدید مالی بحران کا شکار ہو کر نہیں چل رہے۔ نئے جامعات بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ جامعات بنانے سے قبل متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ اسی طرح بغیر فزیبیلیٹی رپورٹس کے جامعات بنائے گئے۔ اب ان میں بھی اکثریت مشکلات کا شکار ہیں۔
ایسے علاقے بھی ہیں جہاں جامعات بنانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جہاں یہ بات کہ فنڈز کو جنریٹ کرنا یونیورسٹی اساتذہ کا کام ہے، یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ اساتذہ کا کام پڑھانا ہے اور وہ تمام تر مالی مشکلات کے باوجود بی ایس، ماسٹرز کے علاوہ ایم فل حتیٰ کہ پی ایچ ڈیز کے کلاسز بھی پڑھائے جا رہے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ سب سے پہلے جامعات کو بچایا جائے تاکہ قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صوبے کے تمام جامعات کیلئے 50 بلین روپے مختص کئے جائیں۔ صوبائی حکومت فوری طور پر ملازمین کی تنخواہوں کو ریلیز کرنے کیلئے اقدامات کریں۔ اسی طرح تمام جامعات کیلئے وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کیلئے فوری اقدامات اٹھائیں جائیں۔ فپواسا نے صوبائی حکومت کو 15 مئی تک کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر انکے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو وہ ایک پریس کانفرنس بلا کر آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے جن میں ممکنہ طور پر تمام جامعات کی بندش کا فیصلہ بھی شامل ہوگا۔