باجوڑ ضمنی الیکشن، پی ٹی آئی دو دھڑوں میں تقسیم کیوں؟
محمد بلال یاسر
قومی اور صوبائی دونوں اسمبلیوں کی 23 خالی نشستوں کے لیے ضمنی انتخابات 21 اپریل کو منعقد ہو رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں کل 239 امیدوار میدان میں ہیں۔ ضمنی انتخابات میں کل 239 امیدوار حصہ لیں گے جن میں سے 50خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے مقابلہ کریں گے۔ قبائلی ضلع باجوڑ بھی اس فہرست میں شامل ہیں ، 31 مارچ کو الیکشن کمپین کے دوران پی ٹی آئی رہنما اور آزاد امیدوار برائے این اے 8 اور پی کے 22 ریحان زیب خان کو نامعلوم افراد نے پھاٹک چوک میں گولیاں مارکر قتل کردیا تھا جس کے بعد دونوں حلقوں پر الیکشن ملتوی ہوگیا۔
8 فروری کو ہونے والے جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدواران ڈاکٹر حمید الرحمان (حلقہ پی کے 19 ماموند) ، انورزیب خان ( حلقہ پی کے 20 سلارزئی ) اور انجنیئر اجمل خان ( حلقہ پی کے 21 اتمان خیل ) نے واضح برتری کے ساتھ کلین سویپ کیا اور تینوں حلقوں پر کامیابی حاصل کی۔
ضمنی الیکشن میں صورتحال تبدیل کیوں ؟
21 اپریل کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں انجنیئر اجمل خان کے چھوٹے بھائی گلداد خان جو کہ سابقہ ایم این اے بھی رہے ہیں ، سنی اتحاد کونسل ( پی ٹی آئی ) کے نامزد امیدوار ہیں۔ جبکہ این اے 8 پر موجودہ ایم پی کے حلقہ پی کے 19 ڈاکٹر حمید الرحمان کے بہنوئی گل ظفر خان جو کہ سابقہ ایم این اے بھی رہے ہیں ، سنی اتحاد کونسل ( پی ٹی آئی ) کے نامزد امیدوار ہیں۔ ان دونوں امیدواران کو تینوں ایم پی ایز اور صوبائی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے مگر ان کیلئے بڑی پریشانی ریحان زیب کے بھائی مبارک زیب نے پیدا کردی ہے جنہوں نے سرکاری مراعات کو ٹھکرا کر اپنے بھائی کی جگہ پی ٹی آئی ورکرز کے پرزور اصرار پر میدان میں کھودنے کا فیصلہ کیا۔
مبارک زیب خان کی سیاسی قوت ؟
مبارک زیب خان کے بھائی ریحان زیب خان نے باجوڑ میں نوجوانوں کی فلاح و بہبود کیلئے یوتھ آف باجوڑ کے نام سے ایک تنظیم بنائی تھی جس میں تین ہزار سے زائد تعلیم یافتہ اور ایکٹیو نوجوان شامل تھے۔ در اصل وہی نوجوان مبارک زیب خان کو موٹیویٹ کرنے میں سب سے بڑا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان میں وکلاء ، ڈاکٹر ، انجنیئر ، صحافی ، سوشل ایکٹویسٹ ، تاجر سمیت ہر طبقہ فکر کے نوجوان شامل ہیں۔ مبارک زیب خان کے حالیہ جلسے اور ریلیاں پی ٹی آئی امیدواران کیلئے سب سے بڑا درد سر ہے ، ان کا ہر جلسہ اور ریلی سینکڑوں کی تعداد سے بڑھ کر ہزاروں میں تبدیل ہوجاتا ہے جبکہ گل ظفر خان اور گلداد خان کے جلسے ماضی کی بنسبت کم اور مبارک زیب خان کے مقابل میں کم تر ہیں۔
ہمدردی کا ووٹ ؟
ماہرین کی رائے یہ ہے کہ مبارک زیب خان کے ووٹ بینک میں سب سے بڑا حصہ ہمدردی کا ووٹ ہے۔ ریحان زیب خان کے بہیمانہ قتل کے بعد پی ٹی آئی ورکرز اور عوام کا ایک بڑا حصہ اب مبارک زیب کو ہمدردی کے نام پر سپورٹ کررہا ہے۔ ہمدردی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی مخالف پارٹیوں کے ورکرز اور قیادت بھی مبارک زیب خان کیلئے کمپین کررہی ہے انہیں سپورٹ بھی کررہی ہے اور انہیں جتوانے کیلئے پر عزم ہے۔
تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں ؟
پی ٹی آئی باجوڑ کے دیرینہ ورکر اور ضلعی کابینہ کے رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ گل ظفر خان اور گلداد خان کو پریشانی اس لیے ہے کہ کیونکہ عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے 8 فروری کو ان کے جیتنے کے چانسز کافی زیادہ تھے مگر اب لوگوں کی ریحان زیب کے بھائی مبارک زیب کے ساتھ ہمدردی بڑھنے لگی اور جو مومینٹم تھا وہ اچانک مبارک زیب کی طرف تبدیل ہوگیا۔ اب اگر پوری پارٹی بھی کوشش کریں تو حالات تین مہینے پہلے جیسے نہیں بن سکتے، جیتے ہوئے سیٹ کو ہارتے ہوئے دیکھنے سے ظاہری بات ہے خوف تو طاری ہوتا ہے۔
الیکشن نہ لڑنے کے بدلے مبارک زیب کو کیا آفرز ہوئیں ؟
جیو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں مبارک زیب نے الزام لگایا ہے کہ الیکشن نہ لڑنے کے بدلے انہیں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے 7 کروڑ روپے اور سرکاری نوکری کی آفر بھی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ضمنی الیکشن میں ٹکٹ کیلئے علی امین گنڈاپور، بیرسٹرگوہر، شیر افضل مروت اور علی محمد خان سے بات کی تھی، علی امین گنڈاپور نے کہا کہ 7 کروڑ روپے اور نوکری دیتاہوں، الیکشن چھوڑ دو۔
مبارک زیب اور ان کے ساتھیوں کے عزائم کیا ہے ؟
مبارک زیب کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے ہمارا دل توڑا ہمیں ناراض کیا، پی ٹی آئی کے مرکزی اور صوبائی قیادت کا مقصد تھا کہ اکیلے میں لالچ دے کر مجھے چپ کروا لیں گے۔ مگر وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے ساتھ باجوڑ کے عوام کی طاقت ہے جو مخالفین کو ٹھکرا چکی ہے۔ 21 فروری کو ہم ثابت کریں گے کہ عوام کس کے ساتھ ہیں۔