پاکستان میں مختلف مذاہب کی آپس میں جڑی عبادت گاہیں انسانیت و احترام مذہب کی بہترین مثالیں
نسرین جبین
تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں یہاں سکھ، مسلمان، یہودی ،مسیحی ہندو اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد لاکھوں کی تعداد میں رہتے آئے ہیں اور ماضی میں اپنی روایات رسومات اور عبادات کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے مذہب اور مسلک کا احترام کرتے تھے۔ ہزاروں سال بعد آج کی نسل کو بھی ان کی اس طرح کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ اگر چہ برصغیر پاک و ہند اور بعد ازاں تقسیم ہو کر پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش بن جانے والے ممالک میں ابھی بھی وہ عمارتیں موجود ہیں جہاں مذہبی عبادت کے لیے مساجد، مندر، گردوارے اور گرجا گھر موجود ہیں جن کی دیواریں یا تو ساتھ ساتھ ہیں یا آمنے سامنے یا پھر قریب قریب ہیں اور ان سب میں اس وقت بھی عبادت ہوتی تھی اور آج بھی ہوتی ہے۔
مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کا قریب ، قریب ہونا ان مذاہب کے ماننے والوں اور رہنماؤں کے درمیان اچھے تعلقات ، روداری ، مذہبی ہم آہنگی،انسانیت اور مذاہب کے احترام کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں اور مراکز کا قریب قریب ہونے سے نا صر ف وہاں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے مذاہب کی تعلیمات کو سیکھنے اور رواداری کے ساتھ رہنے کے بہترین موقع حاصل ہوتے ہیں۔ جبکہ علاقے میں بسنے والے مختلف مسالک و مذاہب کے مراکز اور شخصیات سے باہمی افہام و تفہیم کی مجلسوں میں شرکت کا موقع ملتا ہے۔ پاکستان میں اس طرح کی عبادت گاہوں اور مراکز کی ہمیں کئی مثالیں ملتی ہیں جو یا تو تقسیم ہند سے پہلے کی تعمیر شدہ ہیں یا پھر قیام پاکستان کے بعد میں تعمیر کی گئی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ مذہبی ہم اہنگی کی صورت حال پہلے زیادہ خوشگوار تھی جب گرجا گھر ،مندر اور مساجد کہیں ساتھ ساتھ اور کہیں آمنے سامنے بنائے گئے تھے۔ پرامن بقائے باہمی کی یہ عبادت گاہیں پاکستان کے ایک امن پسند ملک ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
گور گٹھڑی پشاور میں موجود دو ہزار سال پرانا کالی ماتا کا مندر اور اس کے سامنے ہی موجود 2 ہزار سال پرانی مسجد جو کہ قدیم ترین طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے یہ مذہبی رواداری ہم اہنگی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے جہاں نماز کے اوقات میں پانچ وقت نماز ادا کی جاتی ہے اور مندر میں پوجا پاٹ کے اوقات میں آج بھی پوجا کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ پشاور میں ہی درویش مسجد پشاور کینٹ کے علاقے میں موجود ہے جس کی دیوار کے بالکل ساتھ ملحق تاریخی سینٹ مائیکل کیتھیڈرل چرچ کی دیوار ہے۔ مسجد کا سنگ بنیاد 1983ء موافق 1400ھ کو رکھا گیا اور چند سالوں میں تکمیل کو پہنچا۔ یہ مسجد اسلامی مدرسہ جامعہ امداد العلوم الاسلامیہ کے احاطہ میں واقع ہے۔ مسجد کے تمام تر انتظامات مدرسہ کے مہتمم کی زیرنگرانی ہوتے ہیں۔ دونوں عبادت گاہوں میں عبادت ہوتی ہے دونوں مذاہب کی اپنی اپنی تعلیمات کے مطابق دینی تعلیم دی جاتی ہے اور دونوں مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی مذہبی رسومات بھی بھر پور طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ انہی عبادت گاہوں سے جڑا ایک مذہبی ہم آہنگی کا بہترین واقع اس طرح سے ہے کہ پشاور کا رہائشی بائیس سالہ عرفان مسیح شہر کے تاریخی سینٹ مائیکل کیتھیڈرل چرچ میں اپنی شادی کی تقریب کے لیے چرچ کاچمن استعمال کرنا چاہتا تھا۔
چرچ کے منتظم کی طرف سے حامی بھر لی گئی لیکن دولہا کے لیے ایک شرط بھی رکھی گئی کہ تقریب میں کوئی شادی کی موسیقی نہیں چلائی جا سکتی۔ یہ کیتھیڈرل کے پڑوسیوں کے لیے احترام سے باہر ہے کیونکہ یہاں ایک مسجد اور مدرسہ ہے۔ عرفان نے ایڈمنسٹریٹر سے استدلال کرنے کی کوشش کی کہ ۔ ’’یہ میری پہلی اور آخری شادی ہے،‘۔ اس پر اسے سخت جواب دیا گیا: "اگر آپ اتفاق کرتے ہیں تو چرچ آپ کو لان میں مہمانوں کی تفریح کی اجازت دے گا، ورنہ ہم معذرت خواہ ہیں۔ مذہبی رہنماوں کی طرف سے اس قسم کی روادری ، دیگر مذاہب کے اور مذہبی عبادات کے احترام کا درس دور رس نتائج پیدا کرتا ہے۔
پاکستان کے شہر جیکب آباد میں تین مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ ایک مندر، چرچ اور مسلمانوں کی مسجد سب ایک دوسرے سے ملحق ہیں۔شہر کے شکار پور روڈ پر واقع، تین مختلف عقائد کی نمائندگی کرنے والے اس مذہبی کمپلیکس کو مقامی لوگ بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کا مرکز تصور کرتے ہیں۔ یہ عبادت گاہیں ایک قطار میں بنی ہوئی ہیں۔ ایک سرے پر ہندو گوشالا اور مندر ہے اور دوسری طرف مسجد ہے۔ درمیان میں، ایک بپٹسٹ چرچ ہے۔
کراچی میں کلفٹن میں واقع شیومندر (شوا) اور مدینہ مسجد ہے جو ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں اور بہتر ین مذہبی ہم آہنگی کی روشن مثال ہیں ہندو عقیدہ کے مطابق ماہا شوا راتری کی رات کو ایک تہوار منایا جاتا ہے۔ اس رات ہندو عقیدت مند بھوکے رہتے ہیں اور بعض لوگ پانی بھی نہیں پیتے۔
یہ یاتری رات بھر جاگ کر شوا کی پوجا کرتے ہیںپوری دنیا اور پاکستان خصوصاً اندرون سندھ میں ہندو آبادی اس کے تہوار کو یا میلہ کو بہت اہتمام سے مناتی ہے اس میلے میں ہندو یاتری بھارت سے بھی پاکستان آتے ہیں۔جب یہ تہوار اپریل کے مہینے میں کر اچی میں کلفٹن میں شیوا کے مندر میں منایا جاتا ہے توسندھ اور بلوچستان سے بڑی تعداد ہندو یاتریوں کی آتی ہے اور مندر سے لے کر عبد اللہ شاہ غازی مزار تک بسیں اور لوگ (ہندو یاتریوں) کے ہی ڈیرے ہوتے ہیں۔ان دنوں میں مسجد کے باتھ روم ان لوگوں کے لیے کھول دئیے جاتے ہیں تا کہ انہیں آسانی ہو سکے اس تعاون اور اچھا برتاؤ سے ہندو برادری بہت خوشی کا اظہار کرتی ہے جبکہ مدینہ مسجد کلفٹن کی انتظامیہ وقتاً فوقتاً اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعاون کرتی ہے بلکہ مندر کے خاص لوگ (خدام وغیرہ) کو چائے پلا تی ہیںاور جب اُن کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو مدد کرتی ہے تو ان کی مدد بھی کرتی ہےدونوں عبادت گاہیں قریب قریب ہیں جو وہاں کے لوگوں کے دلوں کو بھی انسانیت کے ناطے جوڑے ہوئے ہیں۔
اسی طرح جین مندر چوڑی سرائے میں واقع ہیں جو اندرون ملتان کا ایک تاریخی بازار اور محلہ ہے پاکستان بننے سے پہلے جین فیملی نے اس مندر کو تعمیر کروایا تھا۔ یہاں پر قدیم مورتیاں اور ان کی تصاویر آج بھی موجود ہیں اس قدیمی مندر کے سامنے قدیمی مسجدموجود ہے تقسیم ہند کے وقت ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد علاقے سے نقل مکانی کر گئے اور یہاں عبادت نہیں ہوتی تھی اور مندر کے ساتھ ہی مسجد ہے جہاں مدرسہ بھی ہے۔ مسجد میں مدرسے کے بچوں کے لیے جگہ کم تھی اور بچے دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھےتو ہندوؤں نے مندر کے دروازے بچوں کے لیے کھول دیےجس میں دن بھر بچے قران پاک کی تلاوت کرتے ہیں مدرسے اور مندر کا یہ منفرد جوڑ مذہبی ہم اہنگی کی ایک شاندار مثال ہے مدرسے کے بچے صبح یہاں آ کر دروازہ کھولتے ،مندر کی دیواروں اور چھتوں پر کی گئی خوبصورت کاشی گری سے دھول مٹی ہٹاتے اور مندر کی مورتیوں کی صاف ستھرائی بھی کرتے ہیں اس مدرسے کے منتظمین کے مطابق یہ جگہ صرف درسگاہ نہیں بلکہ سیاحت کے حوالے سے بھی اہم ہے اس مندر کے دروازے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے ہر وقت کھلے رہتے ہیں جین مندر کے نام سے مشہور ہندو مذہب کی عبادت گاہ ہے اور وہاں اس وقت ایک دینی مدرسہ قائم ہے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد اور سیاحوں کو یہ مندر امام صاحب اور ننھے ننھے بچے مل کر دکھاتے ہیں مندر کی دیواروں پہ آج بھی انگریزی اور ہندی زبان میں کچھ تحریریں نصب ہیں جن کو یہاں سے ہٹایا نہیں گیا۔
اور اسی طرح ملک کے مختلف شہروں میں مختلف اوقات میں مسلم ،ہندو، سکھ، اور مسیحی کمیونٹی کی مذہبی روسومات کو اس طرح سے منایا جاتا ہے کہ بین المذاہب ہم ا ٓہنگی، ٌ رواداری اور احترام انسانیت کی اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہیں جہاں عدم برداشت کا رجحان بڑھ رہا ہے وہاں اس قسم کے اقدامات امن کا پیش خیمہ ثابت ہوتےہیں۔ اس کی گزشتہ 5 سال کی تحریری چند جھلکیاںقارئین کی نظر کرتی ہوں۔
ایبٹ آباد کی ایک مسجد میں 25دسمبر 2023 کومسیحی بچوں کے لیے کرسمس کی تقریب کاانعقاد کیا گیا، جس میں مدرسے کے مسلمان طلبہ و طالبات نے مسیحی بچوں کو اسکول بیگ اور کرسمس کے گفٹ پیش کیے ۔تقریب کا اہتمام مدنی جامع مسجد و مدرسہ ترتیل القرآن کے طلبہ و طالبات نے رحمت للعالمین اتھارٹی اور پیس اینڈ ایجوکیشن کی معاونت سے کیا تھا ۔ مسلم علما اور طلبہ نے مسیحی بچوں اور فادرز کی آمد پر گل پاشی کی اور انہیں ویلکم کیا ۔ مسلم بچوں نے مسیحی بچوں کو خود کھانا پیش کیا اور انہیں اسکول بیگ اور کرسمس کے گفٹ پیش کیے۔ اور عید کے موقع پر اسی مسجد میں ایک اور شاندار تقریب ہوئی جس میں مسیحی رہنما اپنے بچوں کے ساتھ اسی مسجد میں آئے اور مسیحی بچوں نے مسلمان بچوں کو تحائف دیے۔
خیبر پختونخوا کی سکھ کمیونٹی پشاور کےمختلف علاقوں میں ماہ رمضان میں مسلمان روزہ داروں کے لیے متعدد افطاری کیمپوں کا اہتمام کرتی رہی۔ سڑکوں پر بھی راہگیروں کو افطار کرایا جاتارہا۔ سب سے زیادہ رش پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں لگائے گئے کیمپ میں ہو تا جہاں دور دراز علاقوں سے آنے والےمریضوں اور ان کے رشتہ داروں کو پردیس میں افطار کی سہولت فراہم کی جاتی تھی افطاری میں پہلے شربت، کھجور، پکوڑے، سموسے اور پھل جبکہ بعد میں کھانا دیا جاتا ہے۔گورپال سنگھ کے بقول افطاری کے لیے کھانے پینے کی اشیاء خرید کر انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے پکوایا جاتا ہے تاکہ کسی قسم کے شک کی گنجائش باقی نہ ہو۔ یہ سب کچھ نیک جذبے کے تحت مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر کیا جاتا ہے تاکہ مسافروں اور بے بس لوگوں کی مدد کی جاسکے اور اس مہینے وہ خود بھی کھلے عام کھانے پینے سے گریز کرتے ہیں۔
سندھ کے شہر میرپور خاص میں ہندو برادری نےایک سو سے زیادہ مسلمان روزے داروں کے لیے فطار کا اہتمام ہندو برادری کے دنیش کمار، ونیش کمار، امیت اور ونود جے پال نے کیا۔ اس حوالےسےونود کہ وہ اس افطار کے ذریعے سماج میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دے رہے ہیں۔ایسا عمل ایک امید کی کرن ہے جو امن کی فضا کو بحال کرتا ہے۔ اس عمل کا بھرپور رسپانس ملنا خو ش آئند ہے
سوات میں مقامی سکھوں نے مسلمانوں کے لیے رمضان میں فلاحی ادارے کے ساتھ اشتراک سےافطار دستر خوان سجایا ہے۔سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد ایک کمیٹی کے ذریعے اپنے لوگوں سے پیسے اکٹھا کرتے ہیں جو بعد ازاں فلاحی ادارے کے سربراہ کو دے دیے جاتے ہیں۔سکھوں کے جانب سے افطار دسترخوان کی سربراہی کرنے والے رضاکار سردار اجے سورن سنگھ کےمطابق وہ افطاری کے لیے کھانے پینے کی اشیا کے پیکٹ تیار کرتے ہیں جسے کچھ روزے دار اپنے گھرلے جاتے ہیں جبکہ کچھ یہاں ان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر کھاتے ہیں۔سوات کے سکھ ہمیشہ مسلمانوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ ہم ہر سال اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے تقریباً پورا مہینہ افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہمارے بعد ہماری آنے والی نسل بھی اس روایت کو برقرار رکھے گی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ضلع بدین کے علاقے کپری موری میں روزہ کھولنے سے پہلےہندو اور مسلمان اکھٹے مل کر دعا کرتے ہیں اور اپنے اپنے آقا سے اپنی التجائیں کرتے ہیں ہندو نوجوان مسلمانوں کے ساتھ روزہ کھولتےہیں ہندو مسلمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور ہندو نوجوان مسلمانوں کے ساتھ روزے بھی رکھتے ہیں ہندو روزہ دار بھارو لال کے مطابق ہم دوست اپنے مذہب کے سارے روزے رکھتے ہیں رمضان میں بھی چار روزے رکھے ہیں جن میں تین جمعہ کے رکھے ہیںمسلمانوْں کے رو زے اس لیے رکھتےہیں کہ یہاں ہندو مسلم بھائی چارہ ہے سندھی ہندو مسلمان بھائی ہیں ہم سب ایک ہیں۔
ضلع تھرپارکر جہاں 18 لاکھ آبادی میں سے نصف آبادی ہندو برادری پر مشتمل ہے کو مذہبی ہم اہنگی کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران ضلعی ہیڈ کوارٹر کے شہر مختلف ٹیمیں ہندو شہری بھرت مہاراج کی جانب سے افطار اپرٹی کا اہتمام کیا جاتا ہ جو اس عمل سے خوشی محسوس کرتےہیں افطاری میں شریک مسلمان معززین بھی اس عمل کو خوب سراہتے ہیں اور اپنی عید ،بکرا عید پر ان لوگوں کے ساتھ عید ملن پارٹیاں کرتے ہیں اس طرح کی تقریبات محبت امن اور رواداری کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔
لاہور کی لبرٹی مارکیٹ میں سکھ کمیونٹی کے درشن سنگھ مسلمانوں کے لیے افطاری کا اہتمام کرتے ہیں جس میں لنگر تقسیم کیا جاتا ہے اور یہ افطاری سڑک کنارے کی جاتی ہے تا کہ بغیر کسی تفریق کےسب کو اس کے حصول میں آسانی ہو۔
روا ں سال مارچ ۲۰۲۴میں مسجد وزیر خان لاہور میں اجتماعی افطاری کا اہتمام کیا گیا تمام مذاہب کے لوگوں نے افطا ر میں شرکت کی اس موقع پرڈھائی سے تین ہزار لوگوں کا انتظام کیا گیا۔ غیر مسلم پاکستانیوں نے مسلمانوں کے لیے افطاری کا اہتمام کیا اس افطاری میں شیعہ ،سنی ، ہندو، کرسچن ،سکھ سب نےایک ساتھ مل بیٹھ کر افطاری کی جس کا مقصد تمام مذاہب کے درمیان روزے کی اہمیت کواجاگر کرنا تھا بین المذاہب ہم آ ہنگی افطار کےچیف آرگنائزر سرادر درشن سنگھ کے مطابق اسی طرح کا ایک اہتمام 17 رمضان کو بادشاہی مسجد میں اور منہاج الحسین میں کیا گیااللہ والے ٹرسٹ اور لائف ان ٹر سٹ کے ساتھ مل کے نوجوانوں نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ پاکستان کے جھنڈے تلے سارے لوگ ایک ہیں ہم پاکستان میں محبت بھائی چا رے اور امن کے ساتھ مل کرپاکستان کی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں
اور اگر ہم دیکھیں تواسی طرح کی کئی مثالیں ہمیں ملتی ہیں جب مسلم برادری اپنے مسیحی ، سکھ،ہندو پاکستانی بھائیوں کے تہوارں میں شر یک ہوتے ہیںاور ان کے دکھ درد تکلیفات میں ان کی داد رسی کرتے ہیںاور آپس کی خوشی وغم میں شریک ہوتے ہیں جو کہ امن و محبت، روادی اور بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانیت کے احترام کی بہترین مثالیں ہیں،حکومتی سطح پر بھی ابہترین اقدامات کی جاتے ہیں۔
راجپوت ویلفئر سوسائٹی کے زیر اہتمام پشاور میں ہر سال ہولی کی تقریبات منائی جاتی ہیں جس میں مسلمان برادری سے ایک بڑی تعداد ان تقریبات میں خوشی سے شرکت کرتی ہے اور ہندو مرد و خواتین اپنی محبت اور بھائی چارے سے انہیں بھی ہولی کے رنگوں میں رنگ دیتے ہیں اور ہنستے کھیلتے اچھلتے کودتے ہولی کے رنگوں میں رنگے یہ مناظر مذہبی ہم ہنگی ،بھائی چارے،روادری کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں ۔ جبکہ عیدالضحیٰ پر مسلمان اپنے ہندو،سکھ اورر مسیحی بھائیوں ،بہنوں اور دوستوں کو قربانی کے بکرےکا گوشت تقسیم کرتے ہیں اس حوالے سے شازیہ نورین کا کہنا ہے کہ میری سکھ کمیونٹی کی دوست کہتی ہے کہ اپ کی قربانی کے بکرے کا گوشت بازار سے ملنے والے گوشت س ےزیادہ لذیذ ہوتا ہے اسی طرح راکھی بندھن کے موقع پر بھی صدر پشاور میں واقع قریب میں درجنوں مسلمان ہندو کمیونٹی کی خواتین س بہن بھائی کے رشتے سے جڑی رسم راکھی بندھواتے ہیں۔
سرکاری سطح پر بھی قانون اور آئین کے تحت اقلیتی برادری کو سہولتیں فراہم کی جاتیں ہیںبلکہ انہیں مختلف شعبوں جیسے تعلیم، روزگار،وغیرہ میں خصوصی کوٹہ فراہم کیا گیا ہے جبکہ سالانہ وظائف بھی دیئے جاتے ہیں اور ہر سال اقلیتی برادری کے لیے بجت میں فندز مختص کیا جاتا ہے جو کہ ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر انہی کے توسط سے خرچ کیا جاتا ہے۔مسیحی ہندو اور سکھ برادری سمیت تمام اقلیتی برادری اپنے مذہبی تہوار آزادی سے مناتے ہیں انہیں تعلیم، روزگار علاج و معالجے، روسومات کی ادائیگی،عبادات و تقاریب کے انعقاد پر مکمل آزادی حاصل ہےجبکہ انسانی اور معاشرتی رویوں میں بھی مثبت تبدیلی آ رہی ہے جو کہ معاشرتی امن کے قیام کے لیے ایک پیش خیمہ ثابت ہو گی۔