خواتین میں ذہنی امراض زیادہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟
ناہید جہانگیر
نادیہ بچپن سے ہی اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت ذہنی طور پر کمزور تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ میٹرک کے امتحان میں فیل ہوئی تو اسے کے والدین نے فیصلہ کیا کہ اسکی شادی کردیں گے کیونکہ وہ پڑھائی میں کمزور تھی۔
پشاور شہر سے تعلق رکھنے والی نادیہ جن کی عمر 21 سال ہے ذہنی مریضہ ہے۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ نادیہ جب آٹھ برس کی تھی تو چڑچڑاپن کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ ضدی بھی تھی۔ اور ’’بعض اوقات تو غصہ کی شدت کی وجہ سے اپنے بال نوچنے لگتی تھی۔‘‘ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا کہ ان کی بیٹی کسی ذہنی بیماری میں مبتلا بھی ہو سکتی ہیں۔
نادیہ جب پہلی مرتبہ حاملہ ہوئیں (2019 میں اپنے خاندان میں شادی کی اور شادی کے پہلے مہینے بعد حاملہ ہوئی تو )تو ان کی طبعیت مزید بگڑ گئی۔ ڈاکٹر سے رجوع کرنے کے بعد ان کے رشتہ داروں کو علم ہوا کہ انہیں کوئی ذہنی عارضہ لاحق ہے۔
صحت کے عالمی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ ’مینٹل ہیلتھ سسٹم ان پاکستان‘ (2021) کے مطابق خیبر پختونخوا میں ایک کروڑ ستر لاکھ افراد ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے طبی مرکز لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق اس ہپستال میں ذہنی مریضوں کے لئے 20 بستروں پر مشتمل ایک وارڈ ہے ’’جس میں 60 فی صد تک خواتین داخل ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس آؤٹ پیشنٹ ڈیوٹی (او پی ڈی) میں مردوں کی نسبت خواتین زیادہ تعداد میں علاج کی غرض سے آتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ خواتین زیادہ ذہنی امراض کا شکار ہو رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں لیڈی ریڈنگ او پی ڈی میں روزانہ کی بنیاد پر 30 سے 35 ذہنی امراض کا شکار خواتین اپنے معائنے کے لئے آتی ہیں جن میں تقریبا 10 کو داخل کیا جاتا ہے۔ اس طرح روزانہ ڈاکٹر کچھ بہتر مریضوں کو ڈسچارج بھی کرتا ہے۔
اسی ہسپتال کے شعبہ ذہنی امراض کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد فراز نے نادیہ کی بیماری کے حوالے سے بتایا کہ حمل کے دوران اور بعد میں خواتین کو کافی ذہنی امراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے اپنے ہاتھوں کو بار بار دھونا، خوراک اور نیند پر اثر پڑنا اور خاص کر بچے کی پیدائش کے حوالے سے مختلف وہم و وسوسوں کا آنا۔ وہ والدین کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ جب بھی بچوں میں روٹین سے ہٹ کر کوئی تبدیلی دیکھیں تو جلد از جلد کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔‘‘
پشاور کے مضافاتی علاقہ بَڈھ بیر کی زینت جن کی عمر 45 سال ہے۔ مینٹل ہسپتال سے اپنا علاج کروا رہی ہیں۔ وہ 10 سال سے اپنا علاج کروا رہی ہیں لیکن ان کے معالج کا کہنا ہے ان کو یہ بیماری کافی عرصے سے ہے۔
زینت اکثر گھر کے کام کاج کے دوارن بے ہوش ہو جاتی تھیں جسے ان کی ساس گھر سے جان چھڑانے سے تعبیر کرتیں۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ بے ہوشی کے دوران زینت کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ اسے عامل کے پاس لے گئی جس نے کہا کہ اس پر جنات کا سایہ ہے۔ اس عامل نے نادیہ کے لئے کچھ تعویذ دیئے جس سے کوئی آفاقہ نہ ہوا۔ بعد میں (تقریبا ڈیڑھ سال سے علاج کروا رہے ہیں جس سے کافی فرق پڑا ہے۔) ان کے شوہر کے ایک دوست کے مشورہ پر انہیں ذہنی امراض کے ایک معالج کے پاس لے جایا گیا جس نے کہا کہ وہ نفسیاتی مرض کا شکار ہیں۔
ڈاکٹر فراز بر وقت علاج نہ کروانے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں میں ذہنی امراض کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں ہے اور نا ہی علاج میں کوئی دلچسپی لیتے ہیں۔ ’’جسمانی بیماری تو سب کو نظر آتی ہیں لیکن ذہنی مرض انہیں کوئی بیماری لگتی ہی نہیں ہے۔‘‘
نسرین جو پشاور شہر گل بہار سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کی عمر 25 سال ہے اور وہ بھی ذہنی مریض ہیں۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بچی کو بھی ذہنی مرض میں مبتلا ہوئے 3 سال ہو گئے ہیں۔ پہلے تو ان کا خیال تھا کہ جنات کا اثر ہے اور وہ دم کرواتے رہے لیکن افاقہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک سال قبل انہیں علاج کے لئے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لایا گیا جہاں ان کا علاج ہو رہا ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر نادیہ جو ایک گائناکالوجسٹ ہیں خواتین کی ذہنی امرض کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ بچے کی پیدائش کے وقت بہت سی خواتین دو خاص ذہنی بیماریوں پوسٹ منیٹل ڈپریشن اور پوسٹ پاٹرم سائکاسز میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ ان کی علامات میں خوراک اور نیند کی کمی کا واقع ہونا، اپنا اور بچے کا خیال درست طریقے سے نہیں رکھ سکنا، بچے کو ٹھیک طرح سے اپنا دودھ نہ پلا پانا شامل ہیں۔ جبکہ ایسے مریضوں کو زچگی کے دوران زیادہ تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ حاملہ خواتین میں ہر 10 میں ایک خاتون ذہنی امراض میں مبتلا ہوتی ہے۔
طاہرہ کلیم ایک سماجی کارکن ہے جو خواتین کے حقوق کے لئے کام کرتی ہیں۔ خواتین کے ذہنی امراض کے حوالے سے کہتی ہیں کہ مار پیٹ تقریباً ہر گھر کا عام معاملہ ہے۔ اور پھر ذہنی صحت پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے جسکی وجہ سے خواتین میں ذہنی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
خواتین کے ساتھ مردوں اور سسرالیوں کا رویہ شروع ہی سے سخت ہوتا ہے۔ اسی طرح والدین کی ترجیح لڑکوں پر زیادہ ہوتی ہیں چاہے وہ خوراک ہو،تعلیم یا صحت کا معاملہ ہو لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کو فوقیت دی جاتی ہے، پھر یہاں سے ذہنی دباؤ یا اثرات شروع ہو جاتے ہیں۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی کم عمر میں شادی کر دیتے ہیں اور جب وہ حاملہ ہوتی ہیں تو اس دوران تمام کمپلیکیشن کا مقابلہ نہیں کر پاتی۔ جو بیماریاں اسکے اندر پیدا ہوتی ہیں اس پر بھی توجہ نہیں دی جاتی۔شادی کے ساتھ ہی ان سے توقعات بڑھ جاتی ہے گھر کے کام کاج کا بوجھ ساتھ میں کم عمر میں حاملہ ہونا ان تمام دباؤ کو کیا وہ برداشت کر پائے گی یا نہیں ان تمام معاملات کا فیصلہ بھی مرد ہی کرتے ہیں۔
طاہرہ کلیم نے کہا کہ مارپیٹ، زبردستی کی شادی عام رواج ہے۔ شادی کے وقت بچوں سے نہیں پوچھا جاتا کہ جو رشتہ طے ہو رہا ہے اس میں لڑکی کی رضامندی شامل ہے کہ نہیں۔ معاشرے میں موجود تمام غیر منصفانہ رویوں کا یا معاملات کا مقابلہ خاتون نہیں کر سکتی جسکی وجہ سے وہ ذہنی امراض کا شکار ہوتی ہیں۔ رویوں کی وجہ سے ان میں چڑچڑاپن آجاتا ہے غصہ بچوں پر نکالتی ہیں یا خود کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اگر یہ پریشانی زیادہ بڑھ جائے تو خودکشی کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ پھر اپنے علاج کے معاملے میں بھی وہ خود مختار نہیں ہوتی مرد یا گھر کے بڑوں کی فیصلے کی پابند ہوتی ہیں۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے خواتین میں ذہنی امراض کا رحجان بڑھ رہا ہے۔
عرشی ارباب جو ایک سائیکالوجسٹ ہیں کہتی ہیں کہ نیند کا نہ آنا، چڑچڑاپن، بھوک کا نہ لگنا، کسی کے ساتھ بات کرنے کو دل نا کرنا یا لوگوں میں گھلنے ملنے کو دل نہ کرنا ذہنی بیماری کی علامت ہو سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جس طرح اور بیماریوں کا علاج ہوتا ہے ویسے ہی ذہنی امراض کا بھی ہوتا ہے ’’لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرہ میں اس بیماری کو ماننے کا تصور ہی نہیں اور مریض کو تب کسی معالج کے پاس لایا جاتا ہے جب اس کی حالت کافی بگڑ چکی ہوتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پہلے تو کوئی خواتین کا ذہنی علاج کرنے کے لئے ان کے گھر والے آمادہ ہوتے ہی نہیں ہیں اور اگر ہو بھی جائیں تو اس کے خاندان والے اس بات کو لوگوں سے چھپاتے ہیں کہ وہ مریض کو پاگل کہنا شروع کر دیں گے۔ غیر شادی شدہ لڑکیوں میں اس بیماری کو خصوصی طور پر چھپایا جاتا ہے کیونکہ اس سے ان کی شادی میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔
عرشی ارباب کے بقول ’’اگر کسی کو کہا جائے کہ ذہنی امراض کے معالج سے رابطہ کریں تو مریض مزید ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے کہ شاید وہ کوئی پاگل ہے۔ بر وقت علاج سے مریض جلد صحت یاب ہو سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مردوں کی نسبت خواتین میں ذہنی امراض زیادہ پائے جاتے ہیں لیکن پاکستان اور خاص کر خیبر پختونخوا میں اس کی شرح زیادہ ہے، اس کی وجوہات معاشرتی اور کلچرل مسائل کا زیادہ ہونا ہے۔