چارسدہ: دریائے سوات اور کابل کی بے رحم موجوں نے 7 افغان طلباء کو نگل لیا
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں عید کے دوسرے دن دریاؤں میں نہاتے ہوئے سات افغان طالبعلم پانی میں ڈوب گئے۔ مقامی غوطہ خور نے فوری طور پر تین بچوں کو زندہ نکال دیا جبکہ باقی بچوں کو نکالنے کے لئے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
یہ طلباء اس وقت ڈوب گئے جب ان کے کچھ ساتھی کھانا پکانے کی تیاریاں کر رہے تھے جبکہ باقی بچے دریائے سوات میں نہا رہے تھے۔ پکنک کیلئے آئے طلباء پشاور کے مختلف دینی مدارس میں زیر تعلیم تھے جنکی عمریں 14 اور 16 سال کے درمیان تھی۔
ڈوبنے والے طلباء کے ایک افغان طالبعلم دوست اکرام الدین نے آبدیدہ ہوکر بتایا کہ پشاور میں پڑھنے والے مختلف مدارس کے 30 تک طلباء چارسدہ کے دریائے سوات کے کنارے پکنک منانے آئے تھے اور ہم کھانا پکانے کی تیاری کررہے تھے کہ اچانک پیچھے سے ایک آواز آئی کہ ان کے کچھ کمسن طلباء پانی میں ڈوب رہے ہیں مگر ہم بے بس تھے۔ ہمیں تیرنا نہیں آتا اور اپنی آنکھوں کے سامنے دوستوں کو ڈوبتے ہوئے دیکھا۔
اکرام الدین کہتے ہیں "ہم نے ایک ہفتہ پہلے آپس میں پکنک منانے کیلئے پانچ پانچ سو روپے چندہ جمع کیا تھا اور چاہتے تھے کہ عید کی خوشیاں کہیں تفریحی مقام پر منائیں مگر معلوم نہیں تھا کہ ہمارے ساتھی ایسے حادثے کا شکار ہونگے”.
انہوں نے بتایا "مقامی لوگوں نے تین طلباء کو نکال دیا جنہیں فوراً گھر بجھوا دیا مگر اب باقی تین افراد کے حوالے سے فکرمند ہیں”. ڈوبتے ہوئے بچوں کے دوست اب چارسدہ کے ایک مقامی مسجد میں اس انتظار پر قیام پذیر ہیں کہ ان کے دوستوں کی لاشیں ملیں۔
طلباء کی ڈوبنے کی خبر جیسے ہی میڈیا پر چلی تو انتظامیہ حرکت میں آگئی مگر دو دن گزرنے کے باوجود بھی بچے نہیں ملے۔
دریائے سوات میں اکثر مقامی لوگ مچھلیاں پکڑنے اور اسے بازاروں میں فروخت کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور وہاں پر محدود وسائل میں اکثر ڈوبتے ہوئے سیاحوں کو نکالنے کیلئے حرکت میں آ جاتے ہیں۔
ڈوبتے ہوئے تین طلباء کو نکالنے والے مقامی غوطہ خور محمد زبیر نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ دور سے دیکھ رہے تھے کہ بچے پانی میں تیراکی سے ناوقف ہیں اور دریا کے خطرات کے بارے انکے دوستوں کو آگاہ کیا مگر انہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
زبیر کہتے ہیں ” ہم آپس میں گفتگو کر رہے تھے، جیسے ہی میں نے ان بچوں کی طرف دیکھا تو وہ ڈوبنے والے تھے اور اسی دوران میں نے چھلانگ لگائی اور باری باری تین طلباء کو نکال لیا مگر باقیوں تک پہنچنے سے پہلے پانی میں ڈوب چکے تھے”.
انہوں نے بتایا کہ آج کل دریاؤں میں پانی کی گہرائی اور دباؤ بڑھتی جا رہی ہے اور دوسرا یہ کہ ان دریاؤں میں گھڑے ہوچکے ہیں جس کی سطح انتہائی نیچے ہوتی ہے تو اس وجہ سے لوگ ڈوب جاتے ہیں۔
چارسدہ کے مقام پر دریائے سوات اور دریا کابل واحد پکنک سپاٹس ہیں جہاں پر عید کی خوشیاں منانے کیلئے صوبہ بھر کے مختلف علاقوں سے سیاح سیر کیلئے آتے ہیں۔ اس مقام پر سیاح نہ صرف کشتی رانی بلکہ تازہ مچھلیاں اور پانی کی موجوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
سیاحوں کے تحفظ کیلئے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دونوں دریاؤں پر ریسکیو 1122 کی غوطہ خور سمیت ایمبولینس گاڑیاں بھی موجود ہوتی ہیں مگر اکثر اوقات نقصان کے بعد یہ ٹیمیں پہنچ جاتی ہیں۔
جائے وقوعہ پر آپریشن میں موجود ریسکیو کے اہلکار جعفر شاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ ان کی ٹیم آپریشن میں مصروف ہے اور امید ہے کہ بچے ملے لیکن اگر یہاں پر نہیں ملے تو شائد وہ کسی اور مقام پر پانی کی اوپری سطح تک آکر خود نظر آجائیں۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں، کامیابی نہ ملنے پر لاشیں نوشہرہ کے مقام پر ملتی ہیں لیکن امید ہے کہ انہیں کامیابی مل جائیں۔
یاد رہے عید کے دوسرے دن کوہاٹ، نوشہرہ اور چارسدہ کے دریاؤں میں 19 افراد ڈوب گئے جن میں 8 افراد کو نکال لیا گیا۔ نکالنے والوں میں تین کو زندہ جبکہ پانچ کو مردہ حالت میں نکال لیا گیا تاہم گیارہ افراد کو تلاش کرنے کیلئے آپریشن جاری ہے۔
اس دوران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور وزیر صحت سید قاسم علی شاہ نے حادثات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تینوں اضلاع کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ اور دریاؤں میں نہانے پر پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کر دئے۔