بلاگزلائف سٹائل

چوڑیوں کی قیمت جان کر میرے تو جیسے پاؤں تلے زمین نکل گئی

 

سندس بہروز

کل میں میں عید کی شاپنگ کرنے بازار گئی۔ ہر طرف چہل پہل اور گہماگہمی تھی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری عورتیں اور بچے بازار ہی میں جمع ہیں۔ مردوں کا ایک جم غفیر تھا۔ جگہ جگہ چوڑیوں اور مہندی کے سٹالز لگے ہوئے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھ میں مہندی کے کون لیے چلتی پھرتی دکانیں بنے ہوئے تھے۔ رمضان کے شروع میں جب دوپہر کو بازار میں ہو کا عالم ہوتا تھا اب وہاں پاؤں رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ میں بھی چوڑیاں خریدنے ایک سٹال کے سامنے کھڑی ہو گئی۔  چوڑیاں پسند کرنے کے بعد جب پیسے دینے کی باری آئی تو قیمت جان کر میرے تو جیسے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ کانچ کی چوڑیاں اور اتنی مہنگی۔ مہندی اور باقی جیولری کو بس حسرت بھری نگاہ سے دیکھتی رہی۔ کیا ہر ایک چیز کو سونے کا پانی دیا گیا تھا۔ میں حیران  دکاندار پریشان کیونکہ میں نے کچھ لیا نہیں۔

بازار سے واپسی پر ابو عید کے لیے مٹھائی لینے رکے۔ مٹھائی کی دکان پر لوگوں کی الگ ہی رونق تھی۔ عید کے پیش نظر دکان کو بھی کافی سجایا گیا تھا۔ رنگ برنگی روشنیاں جگمگا رہی تھی۔ رش کے باعث ابو کو مٹھائی لینے میں کافی وقت لگا۔ گاڑی میں آکر انہوں نے بتایا کہ یہ مٹھائی دکاندار دگنی قیمت پر بیچ رہا ہے۔ لوگ اس کو خدا کا خوف دلا رہے تھے مگر بے سود۔

پچھلے دنوں عید کی تعطیلات ہوگئی۔ اپنے شہر آنے کے لیے جب اڈے پہنچی تو وہاں بھی لوگوں کا ایک جم غفیر۔ ایسے معلوم ہوتا تھا گویا آج ہی سارا شہر خالی ہو جائے گا اور اس کے تمام رہائش پذیر یہاں سے کوچ کر جائیں گے۔ جب اپنے شہر کے سٹینڈ پر پہنچیں تو ایک گاڑی کے باہر لوگوں کا جمگھٹا کھڑا پایا ۔ وہ سب کنڈکٹر سے کسی بات پر محوبحث تھے۔ کچھ لوگ اس کو اس کی نا انصافی کے طعنے دے رہے تھے، کچھ اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے تھے اور کچھ اس کو خدا کا خوف دلا رہے تھے مگر وہ اپنی ضد پر اڑا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ ایک شخص سے دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ عید کے دنوں میں یہ گاڑی والے والے 800-900 کرایہ لے رہے تھے جبکہ معمول کا کرایہ 300 تھا۔ یہ سن کر تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ سب سے زیادہ حیران میں اس بات پر ہوئی کہ کنڈکٹر کے سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح تھی اور وہ ساتھ ساتھ ذکر بھی کر رہا تھا۔

اسی سے مجھے ہوسٹل کا ایک واقعہ یاد آیا۔ اسی رمضان میں جب مرغی کافی مہنگی ہوگئی تھی تو ہم ہاسٹل کی غریب طلباء نےبائیکاٹ کرنے کا سوچا۔ بائیکاٹ کیا ہی کرتے، بس بجٹ سے باہر تھی۔ ایک دن پکوڑے لینے جب مارکیٹ پہنچے تو پتہ چلا کہ مرغی 305 روپے کلو ہوگئی ہے۔ ہم نے فورا دھاوا بولنے کا سوچا۔ فروٹ تو ویسے بھی دسترس سے باہر تھا کم از کم آج مرغی کھا لیتے ہیں۔ مگر مارکیٹ والوں کو ان کی دلیری پر میرا خاص سلام۔ اس دن پورے مارکیٹ میں مرغی نہ تھی ۔ ایک دکاندار  کے پاس ہم گئے تو انہوں نے بہت ساری مرغی کو ایک بڑے سے شاپر میں ڈالا ہوا تھا۔ جب ہم نے کہا کہ ہمیں مرغی دے دیں تو بولے ختم ہوچکی ہے۔ تب مجھے سمجھ میں آیا کہ اب اس مرغی کو فریزر میں رکھیں گے ،جب قیمت بڑھ جائے گی تب یہ نکلے گی۔

میں حیران اس بات پر ہوں کہ کیا مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے یا لوگوں کا لالچ ابھر ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ نہ چوڑیاں بیچنے والے کو خدا کا خوف تھا نہ مٹھائی والے کو آخرت کا ڈر اور نہ ہی مرغی والے کو رمضان کا لحاظ۔ اس شہر رمضان میں اللہ تعالی شیطانوں کو بند ہی اسی لئے کرتے ہیں کہ انسان کو معلوم ہوجائے کہ ہر ایک غلط کام شیطان نہیں کرواتا بلکہ انسان اندر سے خود ہی بہت بے حس اور کھوکھلا ہے۔ ہم اکثر حکومت کو کوستے ہیں مگر جب حکومت نے ایک خاص کرایہ مقرر کر دیا ہے اور مرغی کا ریٹ جاری کر دیا ہے پھر عوام اپنے حصے کی کرپشن سے بعض کیوں نہیں آتی؟  رمضان رمضان کہہ کر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ صرف قول نہیں فعل سے بھی کام لینا ہے۔ یہاں غلطی سرکاری انتظامیہ کی بھی ہے کہ ان دنوں میں تو چیک اینڈ بیلنس زیادہ ہونا چاہیے پھر کیوں نہیں ہے؟  جب پوری دنیا میں رمضان میں چیزیں سستی ہو جاتی ہیں تو ہمارے ہاں مہنگی کیوں؟

کیا آپ بھی سارا ملبہ حکومت پر ڈال کر عوام کی بے حسی کو نظر انداز کرتے ہیں؟

سندس بہروز انگریزی میں ماسٹرز کر رہی  ہیں اور اور سماجی مسائل پر بلاگرز بھی لکھتی ہے۔

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button