میرا دل کرتا ہے کوئی مجھے اس عید پر میسج کی جگہ عید کارڈ بھیجے
قراۃ العین نیازی
اکثر ہم انٹرنیٹ پر دیکھتے ہیں لوگ ایسی پوسٹ لگاتے ہیں جن میں گزرے وقت کے متعلق کچھ نا کچھ ہوتا ہے۔ میں بھی کچھ دن سے ایسی پوسٹ دیکھ رہی ہوں جس میں لوگ 90 کی دہائی اور سن 2000 کی شروع کی عیدوں کو یاد کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ دور لوٹ آئے لیکن گیا وقت کب لوٹتا ہے۔
چھوٹی عید اسلامی تہوار ہے اسے لوگ رمضان المبارک کے بعد مناتے ہیں۔ یہ تہوار اللہ کی طرف سے رمضان کے بعد ہمیں دیا گیا تحفہ ہے اور ہم مسلمان اسے پورے دل سے منانے ہیں۔ بچے بڑے سب نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں ایک دوسرے سے عید ملنا دوست احباب کی طرف تحائف لے جانا اور سب سے زیادہ انتظار بچوں کو عیدی ملنے کا ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم نے اکثر اپنے بڑوں کو کہتے سنا ہے کے عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا جب عید آتی تھی تو رمضان المبارک کا پہلا عشرہ ختم ہوتے ہی لوگ بازاروں میں عید کی تیاریوں میں لگ جاتے تھے۔ کتابوں کی دکانوں پر عید کارڈ کے اسٹال چوڑیوں کے اسٹال اور لڑکیاں ہاتھوں پر مہندی کے ٹھاپے لگواتی۔
بچے بڑے عید سے پہلے ہی عید کی خوشیاں منانے لگ جاتے تھے۔ عید کارڈ لینا اس پر طرح طرح کے اشعار لکھنا آج بھی اس وقت کے لوگوں کو اشعار یاد ہوں گے چوڑیاں اور مہندی لینا پھر اپنے دوستوں کے گھر جانا اور عید سے پہلے انہیں عیدی دینا۔ کارڈ خریدنے سے پہلے اپنے دوستوں کا سوچنا کے کتنے کارڈ لینے ہیں کہیں کوئی دوست رہ نا جائے اور بعد میں انتظار ہوتا کہ اب ہمیں بھی ان دوستوں کی جانب سے عیدی ملے گی۔ ہمارے والدین نے بھی اس سب میں ہمارا پورا ساتھ دیا ہے ہمیں انہوں نے ہی سکھایا ہے کہ دوستی کیسے نبھائی جاتی ہے۔
جب عید کا دن آتا تو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے علاوہ اپنے محلے کے سب گھروں میں جانا اور سے سے عید ملنا یہ ہماری تربیت میں شامل تھا۔ امی خاص طور سے پوچھتی کے کس کس سے عید مل کر آئے ہو اور کس سے نہیں اور اگر کوئی رہ جاتا تو ان سے ملنے دوبارہ بھیجا جاتا۔
تب شاید لوگوں کے دل بھی بڑے تھے ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر انہیں عیدی بھی دی جاتی تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے اب نا جانے دل بدل گئے ہیں یا وقت بدل گیا ہے۔ اب کارڈ کی جگہ وٹس ایپ میسج نے لے لی ہے۔ بس عید والے دن ایک ہی میسج سب کو بھیج دینا اور اپنا فرض پورا کر دینا۔ اب عید والے دن ملنا تو ہوتا ہے پر دل خالی ہوتے ہیں۔ اب عید کا دن ایک عام سا دن لگتا ہے۔ پہلے میلوں کا لگنا ہر طرف بچے رنگ برنگے کپڑوں میں نظر آتے تھے۔ اب معاشرہ اتنا خراب ہو گیا ہے کہ بچوں کے گھر سے نکلنے سے ہی ڈر لگتا ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ جیسے کارڈ سے میسج تک کا سفر جس تیز رفتاری سے کم ہوا ہے عید کی مبارکباد دینا ہی ختم نہ ہوجائے۔ اب عید پھیکی ہوئی ہے پھر شاید اس کی خوشیاں ختم ہی نا ہو جائے۔
ہماری آنے والی نسلیں ان خوشیوں سے محروم نا ہوں اس لئے ہمیں اپنی ان خوشیوں اور روایاتوں کو زندہ رکھنا ہو گا۔ ہمیں ہی اپنے بچوں کو سکھانا ہو گا کہ کیسے عید منائی جاتی ہے اور ہم نے کس کس طرح اپنی عیدیں منائی ہیں۔ بڑوں کو کس طرح عید ملی جاتی ہے انہیں عزت دی جاتی ہے۔ ہمیں بھی اسی طرح سے پیش آنا ہو گا جسے ہم سے ہمارے بزرگ عید والے دن پیار اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ وقت تیزی سے بدل رہا ہے پر ہمیں اپنے گزرے وقت کو اپنے ساتھ کے کر چلنا ہو گا ورنہ ایسی عیدوں کو ہم اور ہماری آنے والی نسلیں ترس جاہیں گی۔ میرا دل کرتا ہے آج بھی کوئی مجھے عید مبارک کے میسج کی جگہ پہلے کی طرح عید کارڈ دے اور ہم پہلے کی طرح عید ملے۔