گلگت بلتستان کے خواجہ سراء خود کو مرد یا خاتون کہلانے پر مجبور
شیرین کریم
ملک کے دیگر شہروں میں آپ کو ٹرانسجینڈرز کمیونٹی کے افراد سڑک پر بھیک مانگتے یا پھر تقریبات میں رقص کرتے دکھائی دیئے ہوں گے، لیکن گلگت بلتستان میں ایسا بالکل بھی نہیں، یہاں ٹرانسجینڈرز خود کو مرد یا پھر خاتون کہلانے پر مجبور ہیں۔
"میرے خاندان اور دیگر چند رشتہ داروں کو علم ہے کہ میں ایک ٹرانسجینڈر ہوں، میں نے لوگوں سے اپنی جنس چھپا رکھی ہے۔ کیا میں انسان نہیں، اللہ تعالی نے مجھے بنایا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے؟
یہ کہنا ہے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی ٹرانسجینڈر رشیدہ(فرضی نام) کا جو اپنی جنس چھپانے پر مجبور ہیں۔ وہ بظاہر ایک خاتون نظر آتی ہیں۔ کچھ سال قبل رشیدہ کے والدین نے اسکی شادی کروادی لیکن شادی زیادہ عرصے تک نہ چل سکی۔ رشیدہ کی طلاق ہوچکی ہے اور اب وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہیں۔
بظاہر تو وہ ایک خاتون نظر آتی ہیں، لیکن درحقیقت رشیدہ ٹرانسجینڈر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ معاشرے کی تنگ نظری اور معیوب سمجھے جانے کے سبب وہ اپنی شناخت خفیہ رکھے ہوئے ہے۔ "اپنی شناخت چھپائے رکھنا کوئی آسان کام نہیں، ایسے لگتا ہے گویا میں قید میں ہوں”
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن تسنیم زہرہ نے بے سہارا اور معذور افراد کو ہنر مند بنا کر بااختیار بنانے کے لئے ایک فنی ادارہ قائم کیا ہے۔ تسنیم زہرہ اکثر خواجہ سراوں کی مدد کے لئے جاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ٹرانس جینڈر جن مشکلات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کا ذکر کرنا بھی مشکل ہے۔جب بھی ملنے گئی ہوں ان آنکھوں میں آنسو اور گلے شکوہ کرتے ہوئے پایا ہے۔
خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈر بھی انسان ہیں لیکن معاشرہ انہیں انسان نہیں سمجھتا۔ لوگوں کا بس چلے تو ان سے جینے کا حق بھی چھین لے۔ "میں صرف ان کی مدد کرتی ہوں جن کو مدد کی ضرورت ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ لڑکا ہے لڑکی ہے یا تھرڈ جنڈر ہے کیونکہ ہم سب انسان ہیں۔”
ملک کے دیگر شہروں کی طرح یہاں گلگت بلتستان میں بھی ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے افراد گھروں سے نکل کر کام نہیں کرسکتے۔ قدامت پسند معاشرے میں رشیدہ کے لئے اپنی جنس چھپانا ایک تکلیف دہ عمل ہے اسکے باوجود جیسے تیسے وہ اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔
گلگت بلتستان میں ٹرانسجینڈر کی اصل تعداد کیا ہے؟
2017 کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کی کل آبادی 14,92924 جبکہ ٹرانسجینڈر کی تعداد 22 ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرانسجینڈر کی یہ تعداد درست نہیں اصل تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اکثر ٹرانسجینڈر اپنی جنس چھپاتے ہیں۔ ایک سروے میں انکشاف کیا گیا کہ گلگت بلتستان میں ٹرانسجینڈرز کی تعداد 225 ہے۔
نفسیاتی مسائل کا شکار ٹرانسجینڈرز کمیونٹی
ماہر نفسیات ہاجرہ بیگ کے مطابق ٹرانس جینڈر کی دو اقسام ہوتی ہیں جن میں سائیکالوجیکل اور بائیولوجیکل ٹرانس جینڈر ہوتے ہیں۔ اکثر ٹرانسجینڈر کی زبردستی شادیاں کروا دی جاتی ہیں یہاں تک کہ بہت ساری ٹرانس جینڈرز معاشرے کے سامنے اپنی حقیقت چھپاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ زہنی طور پر ڈسٹرب رہتی ہیں۔ اکثر تو خودکشیاں تک کرلیتی ہیں۔ شناخت چھپانا آسان کام نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ ٹرانسجینڈرز شناخت کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اسی کشمکش میں دوہری زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکن اسرار الدین اسرار کا کہنا ہے کہ جس معاشرے میں خواتین کو ان کے جائز حقوق نہیں ملتے وہاں ٹرانس جینڈر کے مسائل پر بات کرنا کہاں ممکن ہے۔ معاشرے کی تنگ نظری کے سبب یہ اپنی شناخت چھپاتے ہیں، جسکی وجہ سے سرکاری محکموں میں میں کوٹہ سسٹم کے تحت نوکری کا حصول بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
ٹرانسجینڈرز اپنی شناخت خفیہ کیوں رکھتے ہیں؟
ملک بھر میں خواجہ سرا چوک چوراہوں پر بھیگ مانگتے ہوئے ناچ گانا یا پھر کہیں نہ کہیں نظر آتے ہیں مگر گلگت بلتستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ قدامت پسند معاشرے اور عیب سمجھے جانے کے سبب والدین نہیں چاہتے کہ کسی کو علم ہو کہ ان کے گھر کا کوئی فرد ٹرانسجینڈر ہے۔
جب ہم نے چند ایسے خاندان جن کے گھر کا کوئی فرد ٹرانسجینڈر ہو سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بات کرنے سے گریز کیا۔
جینڈر ایکسپرٹ یاسمین کریم کا کہنا ہے گلگت بلتستان کے ٹرانس جینڈر کا بہت بڑا مسئلہ ان کی شناخت کا ہے۔ گلگت بلتستان میں معاشرہ قبائلی رسم ورواج میں خواتین کی مشکلات بہت زیادہ ہیں تو ٹرانس جنڈر کس طرح اپنی شناخت ظاہر کرکے زندگی گزاریں؟ وہ بتاتی ہیں کہ گلگت میں ٹرانسجینڈرز اپنی شناخت ظاہر کرے تو معاشرہ اسے تنگ نظری سے دیکھتا ہے اسے طعنے دیتے اور مزاخ بناتے ہیں۔
پاکستان کے دیگر شہروں میں انہیں گرو کے حوالے کردئیے جاتے ہیں اور یہ مل کر رہتے ہیں مگر گلگت بلتستان میں یہ لوگ یا لڑکی بن کر یا لڑکا بنکر زندگی گزارتے ہیں۔ اگر لڑکی بن کر زندگی گزارتی ہے تو انکی شادی ہوتی ہےجس کی وجہ سے انہیں بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسلیے والدین کو خاص کر ماں کو چاہیے کہ انکی کاونسلنگ کریں تاکہ وہ جس زہنی دباو کا شکار رہتے ہیں اس سے باہر نکل سکیں۔
اگر ایک ٹرانس اپنی شناخت چھپاتا ہے تو وہ زہنی اور جسمانی طور پر بھی ازیت اور دباو میں رہتا ہے اپنے مطابق زندگی گزار نہیں سکتا۔ ٹرانس جینڈرکی شادیاں نہیں کرنی چائے کیونکہ یہ عمل ایک مرد اور عورت کے درمیان ہوتا ہے اور شادی کے بندھن میں بند جانا ٹرانسجینڈرز کے لئے ڈپریشن جیسی بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔
ٹرانس جینڈرز کے وجود کو تسلیم کرکے انکی تعلیم، صحت اور پروفیشنل ڈویلپمنٹ پر کام کرنا چاہئے تاکہ وہ با اختیار بن سکیں۔
ٹرانسجینڈرز معیوب کیوں سمجھے جاتے ہیں؟
انسانی حقوق کے کارکن اسرار الدین اسرار نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں اپنا نام بھی مردم شماری میں اپنی جنس واضح نہیں کرتے۔ گلگت بلتستان میں اگر کسی کے گھر میں ٹرانس جینڈر ہوتا ہے اسے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، یہی سے اسکے تمام حقوق خودبخود غصب ہو جاتے ہیں۔
انہیں تعلیم اور صحت کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سب سے اہم چیز ٹرانس اپنی سوچ کے مطابق ایک مخصوص لباس زیب تن کرتے ہیں جس پر انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ وہ مذید بتاتے ہیں کہ گلگت بلتستان اسمبلی ٹرانسجینڈرز کے حقوق سے متعلق مضبوط قانون سازی کرے او شہریوں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اسی صورت میں ان کے مسائل کم ہوسکتے ہیں۔
سید ارشاد کاظمی بانی ڈس ایبیلٹی اینڈ سوشل رائٹس ایکٹوسٹ کا کہنا ہے کہ ایک سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں 225 ٹرانسجینڈرز ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ معاشرے کی تنگ نظری کے سبب انہوں نے اپنی شناخت چھپا رکھی ہے۔یہ تعداد تو صرف انکی ہے جنہوں نے اپنے آپ کی شناخت کی ہے مگر تعداد اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔
اگر ٹرانسجینڈرز کو شناخت ظاہر کرنے کی آزادی حاصل ہوجائے تو وہ بھی خواتین اور مردوں کے برابر تعلیم حاصل کرکے بہتر روزگار کے مواقع اور دیگر سہولیات سے استفادہ حاصل کر کے خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔
تسنیم زہرہ کہتی ہیں کہ افراد باہم معزور بھی گھروں کی حد تک محدود تھے مگر اب وہ بھی گھروں سے نکل کر اپنے اپ کو ہنر مند بنارہے ہیں۔ اسی طرح ٹرانس جنڈر بھی تعلیم حاصل کرکے دیگر شہریوں کی طرح خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔