ملازمت کے مواقع نہیں یا لوگوں کو پیسے کمانے کا ہنر نہیں آتا؟
ناہید جہانگیر
چند روز پہلے پشاور کے بھانہ مانڑی چوک سے گزر رہی تھی تو دیکھا کہ ایک ریڑھی والے پر کافی رش ہے رش اتنا زیادہ تھا کہ ریڑھی اور ریڑھی والا نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔ اس رش میں اس چاچا سے چند ایک سوال کئے جسکے بہت تیزی سے جواب دیئے۔ چھولے فروش چچا نے بتایا روزانہ وہ 2 سے 3 ہزار کماتا ہے۔ وہ کئی سالوں سے ریڑھی پر چھولے اور لوبیا بیچتا ہے۔ کیونکہ آج کل رمضان کا مہینہ ہے وہ روزانہ سہ پہر کو ریڑھی لگاتا ہے جیسے ہی گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ گزرتا ہے ریڑھی خالی ہوجاتی ہے اور اسکو 2 سے 3 ہزار تک منافع ہوتا ہے جس سے ان کی زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے۔ اس چاچا کی بات سن کر حیران رہ گئی کہ واقعی اگر کوئی محنت کرتا ہے تو اللہ ضرور صلہ دیتا ہے۔
لوگ اس انتظار میں ہے کہ سرکار کی جانب سے ملازمت کے مواقع ملیں گے تب ہی کام کریں گے لیکن یہ بھی نہیں سوچتے کہ پھر وہی میرٹ اور رشوت اور سفارش کی وجہ سے ملازمت سے رہ جاتے ہیں۔ اس انتظار میں وقت نا صرف ضائع ہوتا ہے بلکہ اپنے حالات تبدیل کرنے میں بھی کافی دیر کر دیتے ہیں۔
اس حوالے سے ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد خان ڈائریکٹر فسکل رسک اکانومی ایڈوائزری ونگ اسلام آباد نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ ہر چیز کے لیے حکومت پر انحصار کرنا نہیں چاہیے حکومت کے مسائل زیادہ جبکہ وسائل کم ہے۔ اسی طرح سے ایک عام شہری کے پاس وسائل بہت ہی کم ہیں جبکہ مسائل زیادہ ہیں تو نا ہی عام بندہ خود اپنی سطح پر اور نہ ہی حکومت اکیلا کچھ کر سکتا ہے تاکہ تمام لوگوں کو روزگار مہیا کر سکے۔
وہ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اگر کوئی غریب پیدا ہوتا ہے وہ غریبی میں بڑا ہوا ہو تو اسکو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لئے انویسٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہیں تو غربت ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کسی بھی چھوٹے سے کاروبار کو شروع کرنے لئے 20 سے 50 ہزار کی ضرورت پڑ سکتی ہیں۔ اس رقم کو اکٹھا کرنے لئے بھی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد خان بتاتے ہیں کہ یہ بات بھی درست ہے کہ روزگار کرنے کے لئے نوجوانوں کی تربیت ضروری ہے کہ وہ کیسے کم بجٹ میں روزگار کر سکیں۔ یہاں بھی سرکار کی زمہ داری ہے کہ اپنے غریب بے روزگار نوجوان نسل کو مختلف ہنر کی تربیت دیں تاکہ ملک میں غربت اور بے روزگاری کی شرح کو کم کیا جاسکے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد خان نے کہا کہ معاشیات کے مطابق ایک تیسری اپشن ہے جس کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کہتے ہیں جس میں حکومت اور پرائیویٹ دونوں کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ لیکن ایک عام آدمی یا شہری کی نسبت حکومت کی بہت زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ اس پر وقت کے تقاضے کے مطابق کافی ڈسکشن کی ضرورت ہے جس طرح حکومت بجٹ پیش کرتی ہے حکومت عام ادمی یا عوام کے لیے روزگار دینے کی تمام سہولیات مہیا کرے گا۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اکنامک گروتھ شو کرے کہ عوام کو اکنامک گروتھ اور روزگار مہیا کریں جس طرح سوئی گیس واپڈا تعلیم ، صحت کے وغیرہ محکموں میں لوگوں کو سرکاری ملازمت دیں۔
اس کے علاوہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو روزگار دینے کے لیے ایک سازگار ماحول بنائیں جیسے بزنس سرمایہ کاری ،بزنس دوست ماحول بنائیں۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بطور ماہر غذائیت کام کرنے والی پروفیسر خلیل بتاتی ہیں کہ ان کے پاس روزانہ کی بنیاد پر ایسے والدین بھی اپنے بچوں کو لے کر آتے ہیں کہ ان کے بچے سلو لرنر ہوتے ہیں یعنی وہ اپنی عمر سے 2 یا 3 سال پیچھے ہوتے ہیں۔ تو ان والدین کے لئے مشورہ ہے کہ دنیا مواقعوں سے بھری پڑی ہیں۔ دنیا میں سب سے امیر ترین لوگوں میں کوئی بھی ڈاکٹر، انجینئر نہیں ہے۔ بچوں کو اچھی تربیت دیں کہ وہ کیسے اپنی مرضی کے پیشے سے منسلک ہوکر خوب کما سکتے ہیں۔
پشاور کی بس پری جو ببو کے نام سے مشہور ہیں اور گھر میں مربہ ،اچار بنانے کے ساتھ ساتھ گھر میں بچوں کے لئے جھولے بھی بنائے ہیں جہاں بچے جولتے ہیں۔ وہ روزانہ ہزاروں کماتی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ ایک سرکاری آفیسر سے وہ گھر میں بیٹھ کر زیادہ کما لیتی ہیں وہ نا صرف اپنا پیٹ جبکہ اپنے پورے خاندان کو پالتی ہیں۔
حل کے حوالے سے ماہر معشیات ڈاکٹر شاہد خان بتاتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ حکومت بزنس والا ماحول ،سرمایہ کار دوست ماحول بنائیں پرائیویٹ سیکٹر کو ٹیکس ان سینٹو دے تاکہ وہ جابز کرییٹ کرے۔ جس طرح جگہ جگہ اب انڈسٹریل سٹیٹ بن گئی ہے جس میں ضلع خیبر، حیات اباد اور ریگی میں انڈسٹریل سٹیٹس بن رہی ہے۔ یہ انڈسٹری سٹیٹ بذات خود لوگوں کو روزگار مہیا کرے گا لیکن حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہاں پہ پکی سڑکیں بنائیں۔ پل بنائیں ٹرانسپورٹیشن وغیرہ کا سسٹم صحیح بنائیں تو یہ روڈ پل ٹرانسپورٹیشن بھی بذات خود روزگار مہیا کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ بنے گی۔