سوات: بارہ سالوں میں غیرت کے نام پر 263 افراد قتل
شہزاد نوید
کلثوم احمد خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل چارباغ کی رہائشی ہیں۔ ان کی عمر بائیس سال ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی سترہ سالہ بہن شاہ بانو کو ان کے گھر والوں نے چائے میں زہر ملا کر پلادی تھی۔ شاہ بانو کی موت کو تقریبا نو مہینے گزر چکے ہیں، کلثوم بتاتی ہیں کہ انہیں ہروقت اپنے گھروالوں کے ہاتھ خون سے لتھڑے نظر آتے ہیں اور انہیں ڈرلگا رہتا ہے کسی دن وہ انہیں بھی جان سے نہ مار ڈالیں۔
کلثوم نے بتایا، شاہ بانو میٹرک کی طالبہ تھی، وہ بہت لائق سٹوڈنٹ تھی اور ڈاکٹر بننا چاہتی تھی، لیکن اس سے پہلے ہی بدقسمتی سے گھروالوں نے اس کی جان لے لی۔ وہ میرے ساتھ اپنی ہر بات شیئر کرتی تھی، گائوں کا ایک لڑکا اسے پسند تھا۔ وہ کبھی کبھی فون پر آپس میں بات کر لیتے تھے۔ میرے علاوہ کسی کو بھی اس بارے نہیں پتہ تھا لیکن ہمارے گھروالوں کو بانو پر شک ہو گیا تھا۔ انہیں لگا کسی دن وہ اس لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی یا اس نے کورٹ میرج کرلی تو ان کی عزت داغدار ہوجائے گی۔ اسی لیے اسے زہر دے کر قتل کر دیاگیا۔ علاقے میں بانو کے موت کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ دمہ کے مرض میں مبتلا تھی، سانس کی تکلیف سے اس کا انتقال ہوا تاکہ بھائیوں اور والد کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کی جاسکے۔ بانو کے قتل کا کبھی مقدمہ ہی درج نہیں ہوسکا۔
"پشتون معاشرے میں والدین کے سامنے اپنی پسند یا جیون ساتھی کے حوالے سے بات کرنا ایک جرم ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بیٹی یا بہن کوئی گناہ کبیرہ کر رہی ہے۔ پھر ان کے پاس دو آپشنز ہوتی ہیں؛ "غیرت کے نام پر قتل یا کسی اورکے ساتھ لڑکی کی جلداز شادی کروادینا”۔
پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم “دی اویکننگ” کے مطابق گزشتہ بارہ سالوں میں سوات میں ‘غیرت’ کے نام پر 263 افراد کا قتل کیا گیا۔
“دی اویکننگ” کے عداد و شمار کے مطابق 2012 میں 16، 2013 میں 29، 2014 میں 14، 2015 میں 27، 2016 میں 34، 2017 میں 28، 2018 میں 16، 2019 میں 15، 2020 میں 18، 2021 میں 18، 2022 میں 16 اور 2023 میں 32 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔
دی اویکننگ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عرفان حسین بابک نے بتایا کہ عموما گھر والے قتل کرنے کے لیے زہر کا استعمال کرتے ہیں تاکہ بعد ازاں موت کو خودکشی کا رنگ دیا جا سکے۔ ایسے کیسز میں ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں کیونکہ پولیس اکثر اوقات خواتین کے قتل کو خودکشی قرار دے کر تفتیش ہی بند کردیتی ہے، یا زیادہ تر کیسوں میں غیرت کی دفعہ 311 ہی شامل نہیں کرتی، کیونکہ اگر کیس میں غیرت کی دفعہ شامل کی جائے تو پھر اس میں راضی نامہ نہیں ہوسکتا اور کیس میں ریاست فریق بن جاتی ہے۔ اس لیے وہ ایسے کیسز میں مذکورہ دفعہ لگانے سے ہچکچاتے ہیں، جس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔
صرف خواتین کا غیرت کے نام پر کیوں قتل کیوں ؟
پشتون معاشرے میں جرگہ ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے جہاں باہمی تنازعات اور مختلف مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔ تاہم عموما جرگوں میں بیشتر فیصلے مرد کرتے ہیں لیکن خویندو جرگہ اپنی نوعیت کا واحد ایسا فورم ہے جہاں خواتین ہی خواتین کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس جرگے کی رکن خاتون تسبم عدنان جن کا تعلق سوات سے ہے، انہوں نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کے باوجود ان میں سے اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں کیونکہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں مدعی اکثر ملزمان سے صلح کر کے مقدمے کی پوری طرح پیروی نہیں کرتے۔
تبسم کہتی ہے کہ اس جرگہ میں خواتین مسائل لیکر اتے ہیں اور ہم سب خواتین مل کر ان کے مالی اور قانونی مدد کرتی ہیں۔ اس جرگے کے سب سے خاص اور اہم بات یہ ہے کہ پشتوں کلچر کا سب پتہ ہے یہاں پر مرد کے سامنے اپنے حقوق کی بات کرنا ان کو توہین سمجھا جاتا ہے اور پھر ان کے خلاف پولیس یا عدالت میں کاروائی کرنا تو ناممکن ہوتا ہے۔
اس جرگہ میں متاثرہ خواتین کو قانون اور ان کی حقوق کے بارے میں سمجھایا جاتا ہے کہ آئین پاکستان نے اپکو مندرجہ حقوق دیئے ہیں تم ان کے خلاف قانونی کاروائی کرکے اپنی اور اپنے بچوں کے حقوق کیلئے لڑوں۔ اس کیس کے دوران متاثرہ خاتون کو مالی مدد اور ان کو پولیس سے سیکورٹی فراہم ہماری ذمہ داری ہے۔
قتل میں کون ملوث ہو سکتا ہے؟
‘غیرت’ کے نام پر قتل اور قانون سازی کے حوالے سے ایڈوکیٹ سیف اللہ السلام نے بتایا کہ ‘غیرت’ کے نام پر مرد و خواتین کے قتل میں ملوث بیشتر ملزمان رشتہ دار ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایسے کیسز کی رپورٹ ہی درج نہیں کروائی جاتی اور اگر رپورٹ درج ہوبھی جائے تو شہادت دینے کے لیے کوئی راضی نہیں ہوتا۔ اسی لئے ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں۔
سیف الاسلام کے مطابق 2021 میں خیبر پختونخوا اسمبلی سے گھریلو تشدد کا بل پاس ہوا، دیگر اضلاع میں پروٹیکشن کمیٹیز بھی بنائی گئیں لیکن اس کے بعد یہ کمیٹیز نوٹیفائی ہی نہیں ہوئیں۔اسی لیے اگر خواتین گھرمیں تشدد کا شکارہوتی بھی ہیں تو وہ اسے رپورٹ نہیں کرپاتیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر میاں نظام علی نے بتایا کہ بعض مردوں کو ذہنی بیماری ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی بیویوں اور بہنوں پر شک کرتے ہیں، جب وقت گزرنے کے ساتھ بیماری میں اضافہ ہوجاتا ہے تو وہ بیوی یا بہن کے قتل تک جا سکتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفس سے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2012 سے 2017 تک 37، 2018 میں 5، 2019 میں 9، 2020 میں 7، 2021 میں 8، 2022 میں 6 اور 2023 میں 9 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں. پولیس کے عداد و شمار کے مطابق گزشتہ بارہ سال میں 80 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ۔ جن میں سے عدالت میں 27 کیسز چل رہے ہیں جبکہ 81 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شفیع اللہ خان گنڈاپور نے بتایا کہ ایسے کیسز میں دفعہ 302 اور دفعہ 311 پی پی سی لگائی جاتی ہیں۔ہماری نظرمیں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔کسی خاندان میں غیرت کے نام پر لڑکی کا قتل کرنا تو خاندان میں تمام تر لڑکیوں کا ذہنی قتل کرنا ہے۔ اگر کسی کی بیٹی، بہن یا دوست کو قتل کیا جاتا ہے تو عمر بھر ان کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کیا جاتا ہے۔ ان کو یاد کرنے سے معاشرے میں نفرت کا سبب بنتی ہیں تو دوسرے طرف خود کو معاشرے اور لوگوں سے محتاط رکھ کر مستقل کو متاثر ہوتے ہیں۔
شفیع اللہ خان گنڈاپور کہتا ہے کہ عموما میرے پاس زیادہ مریض خواتین ہی ہوتی ہیں۔ وہ خاندان یا دیگر گھریلوں مسائل سے دوچار ہوتی ہیں کبھی کبھار اس نوعیت پر پہنچ جاتی ہیں کہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ملک میں کورونا وباء کے بعد مریضوں میں 35 سے 40 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
پولیس کے عداد و شمار کے مطابق اس سال نو کیسز سامنے آئے ہیں۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شفیع اللہ خان گنڈاپور کے مطابق ان میں 16 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان میں سے 4 افراد کو جائے وقوعہ سے اسلحہ سمیت گرفتار کرلیا گیا ہے۔ کوئی قانون سے بالاتر نہیں اگر کوئی بھی اس طرح واقعات میں ملوث ہیں تو ان کو قانون کے کٹہرے میں لاکر سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔