عام انتخابات کے دوران خیبرپختونخوا کے کس حلقے میں خواتین نے کم ووٹ ڈالے؟
عبدالستار
خیبرپختوںخوا میں عام انتخابات کے دوران خواتین کی رجسٹرڈ ووٹوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 31 اعشاریہ37 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ اس دوران تین صوبائی حلقوں میں خواتین کی کل رجسٹرڈ ووٹوں میں سے ڈالے گئے ووٹوں کی شرح دس فیصد سے کم ریکارڈ کی گئی ہے۔ ضلع خیبر کے حلقہ پی کے 71 میں سب سے کم 9 اعشاریہ 79فیصد،جنوبی وزیرستان اپر کے حلقہ 109 میں 6 اعشاریہ 86فیصد اور بٹگرام کے حلقہ پی کے 34 پر9 فیصد خواتین نے ووٹ ڈالے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کےجانب سے دی گئی تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا کے صوبائی اسمبلی کے 115میں سے 113نشستوں پر عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا جس میں ان حلقوں پر خواتین کی کل رجسٹرڈ 96 لاکھ 26 ہزار 9 سو 87 ووٹوں میں سے 30لا کھ 20 ہزارایک سو 42 ووٹ کاسٹ کئے گئے ہیں جس کا ٹرن آوٹ 31 اعشاریہ 37فیصد بنتا ہے۔
پورے ملک کی طرح خیبرپختوںخوا میں آٹھ فروری کو عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا جس میں الیکشن کمیشن کے ویب سائٹ پر موجود فارم 47 کے مطابق عام انتخابات کے دن خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر میں حلقہ پی کے 71میں خواتین کے کل ایک لاکھ 3ہزار سات سو 94ووٹوں میں سے 7ہزارپچاس ووٹ ڈالے گئے جس کا ٹرن آوٹ 6 اعشارہ 79 فیصد بنتا ہے جبکہ اس حلقے میں مرد و خواتین کی کل ووٹوں کی ٹرن آوٹ شرح 18 اعشاریہ 18 فیصد ہے۔
قبائی ضلع وزیرستان اپر کےحلقہ پی کے 109 کے فارم 47 کے مطابق اس حلقے میں خواتین کے کل ووٹ ایک لاکھ 30 ہزار 3 سو 21 ہیں اور الیکشن کے دن خواتین کے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 8 ہزار 9 سو 45 ہیں جس کا ٹرن آوٹ شرح 6 اعشاریہ 86 فیصد بنتا ہے جبکہ اسی حلقے میں کل ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 11 اعشاریہ 94 ریکارڈ کی گئی ہے۔
اسی طرح خیبرپختوںخوا کے ہزارہ ڈویژن کے صوبائی حلقہ پی کے 34 بٹگرام میں خواتین کی کل ووٹوں کی تعدا 74ہزار ایک سو 56 ہیں اور عام انتخابات کے دن خواتین کی جانب سے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 6 ہزار چھ سو 78 ریکارڈ کی گئی جس سے اس حلقے مین خواتین کی ووٹ ڈالنے کی شرح 9 فیصد بنتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح حلقہ پی کے 111 ڈی آئی خان ون میں ریکارڈ کی گئی ہے جو 56 اعشاریہ 80 فیصد ہے۔
اس حلقے میں خواتین کے کل ووٹوں کی تعداد 92825 ہیں جبکہ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 52724 ہیں۔ اس حلقے میں کل ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 60 اعشاریہ 98 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔
عام انتخابات کے دوران صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں پی کے 22 باجوڑ اور پی کے 91 کوہاٹ پر امیدواروں کی موت واقع ہوجانے کی وجہ سے الیکشن ملتوی کردیے گئے۔
خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کی 45 نشستوں میں سے 44 نشستوں کے نتائج کے ریکارڈ کے مطابق خواتین کی ووٹ ڈالنے کی شرح 28 اعشاریہ 58 فیصد ریکارڈ کی گئی اور کسی بھی حلقے میں خواتین کی ووٹ ڈالنے کا ٹرن آوٹ دس فیصد سے کم نہیں ہیں جبکہ سب سے کم ووٹ ضلع خیبر کے حلقہ این اے27پر ریکارڈ کیا گیا جو 10 اعشاریہ 70 فیصد ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 8 باجوڑ پر امیدوار کے قتل ہونے کی وجہ سے انتخابات روک دیے گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا موقف:
الیکشن کمیشن خیبرپختونخوا کے ترجمان سہیل احمد نے بتایا کہ جن حلقوں میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح کم ریکارڈ کی گئی ہے یہ صرف خواتین کے کل ووٹوں کے حساب سے بنتا ہے اس تناسب پر دوبارہ الیکشن کا انعقاد نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین کی ووٹ کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اسلام آباد ایک خاص ونگ ہے جو اس حوالے سے تفصیلات اکٹھی کررہی ہیں اور جہاں پر بھی خواتین کا ٹرن آوٹ دس فیصد سے کم ہو اس حوالے سے لائحہ عمل مرتب کرے گی۔
عوامی نیشنل پارٹی کی خاتون رہنما نصرت آرا نے بتایا کہ الیکشن کے دن خواتین مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کررہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ جنرل الیکشن میں خواتین کے کم ووٹ کی شرح کی سب سے بڑی وجہ نئی حلقہ بندیوں میں مختلف جہگوں پران کا ووٹ رجسٹرڈ کرنا تھا۔
خاتون کا ووٹ ایک یونین کونسل میں تو اس کے شوہر کا دوسرے یونین کونسل میں رجسٹرڈ ہوا تھا جبکہ الیکشن کے دن موبائل بند ہونے سے خواتین مشکلات کا سامنا کررہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سی خواتین الیکشن کے دن ووٹ معلوم نہ ہونے پرپریشان ہوکر واپس اپنے گھروں کو چلی جاتی۔
نصرت آرا نے بتایا کہ الیکشن سے پہلے میڈیا اور سوشل میڈیا پر دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے کی خبروں نے بھی خواتین کو صوبے کی کچھ حصوں میں ووٹ ڈالنے سے روکا۔
خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی سماجی کارکن شاد بیگم نے بتایا کہ عام انتخابات کے موقع پر خواتین مختلف مشکلات کا شکار رہی ہیں۔ پولنگ کے دن خواتین کو پولنگ سٹیشن ڈھونڈنے میں بھی مشکلات تھی اور یہ بھی پتہ نہیں ہوتا تھا کہ ان کا ووٹ رجسٹڑد ہے کہ نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ قبائلی اور پہاڑی علاقوں میں خواتین کو پولنگ سٹیشن جانے میں بھی مشکلات ہوتی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی الیکشن مہم مردوں کے زریعے چلاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب پولٹیکل سرگرمیوں میں تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیاں دلچسپی لے رہی ہیں اور اس مرتبہ ووٹ ڈالنے آئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جنرل الیکشن میں جن خواتین نے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھا انہوں نے خود مہم بھی نہیں چلائی اس کے لئے بھی مردوں نے الیکشن مہم کیا تھا۔ اس وجہ سے عام انتخابات کے دن خواتین کی موبلائزیشن کم رہی ہے۔
قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے صحافی خادم آفریدی نے خواتین کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی کم شرح کی وجہ مقامی روایات کو ذمہ دار ٹھرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر میں مرد اپنی خواتین کو بازار میں شاپنگ کی اجازت نہیں دیتے تو ووٹ کے لئے جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں پر لوگوں کو ووٹ کی اہمیت کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں جس کی وجہ سے لوگ ووٹ ڈالنے کی عمل کو غیر فائدہ مند سمجھتے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے صحافی مزمل خان داوڑ نے بتایا کہ خواتین کی کم ووٹ ڈالنے کی بڑی وجہ بدامنی ہے اور لوگ ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ ہوجائے۔
یہاں پر مرد بھی ووٹ ڈالنے کے لئے کم نکلتے ہیں اور خواتین کو بھی یہ کہتے ہیں کہ ووٹ ڈالنے کے دوران خطرہ ہوسکتا ہے۔ قبائلی روایات میں خواتین کو گھروں کے اندر رکھا جاتا ہے اور لوگوں میں ووٹ کی اہمیت کے حوالے سے کوئی آگاہی نہیں ہے کہ ووٹ ڈالنا ہماری ایک قومی ذمہ داری ہے۔