"طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے زیادہ مشکلات افغان خواتین کو درپیش ہیں”
حسام الدین
گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران افغانستان جنگوں کے دوران مختلف قسم کی حکومتوں کے زیراثر رہا تاہم جب بھی وہاں پر افغان طالبان یا امارت اسلامی کی حکومت یا اختیار رہا تو عورتوں کے حوالے سے شکایات نے جنم لیا۔ اب کی بار بھی جب اختیار امارت اسلامی کے پاس آیا تو ملک کے مختلف حصوں سے خواتین خصوصا جوان لڑکیوں کے حقوق کی پامالی اور ان پر پابندیوں کی شکایات نے سراٹھایا۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یوناما نے افغانستان میں سیکورٹی صورتحال اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر ایک رپورٹ جنرل اسمبلی میں جمع کرائی ہے جس میں اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
یونائیٹڈ نیشن اسسٹنس مشن افغانستان (یو این اے ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 2023 کے آخر میں کابل کے بعض علاقوں بامیان، بغلان، بلخ، دائی کنڈی، غزنی اور سمنگان صوبوں میں لڑکیوں کو 25 اپریل 2022 کے حجاب کے حکمنامے کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں پولیس نے گرفتار بھی کیا۔ کابل شہر میں خواتین اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر کے کئی گھنٹوں تک حراست میں رکھا گیا۔
14 دسمبر کو یو این اے ایم اے کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف صنفی بنیاد پرتشدد کے حوالے سے کوئی واضح قانونی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔جبکہ خواتین سے متعلق شکایات کو وہی پرانے روایتی طریقہ کار کے تحت حل کیا جاتا ہے۔
یو این اے ایم اے کی سربراہ روزا اوتن بائیوا نے افغانستان کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیاں ختم کریں بصورت دیگر ملک کو مزید غربت اور تنہائی کی طرف دھکیلنے کا خطرہ ہے۔
اوتن بائیوا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگست 2021 کے بعد سے،امارت اسلامی کے حکام نے زیادہ تر خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں پر متعدد پابندیاں عائد کی ہیں، جن میں سب سے زیادہ ثانوی تعلیم تک رسائی کو روکنا،خواتین کو روزگار تک رسائی کو محدود کرنا، اور گھر سے باہر نقل و حرکت کی آزادی کو محدود کرنا شامل ہے۔
افغانستان کے امور پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ نگارحق نواز نے اس حوالے سے بتایا کہ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے زیادہ مشکلات افغان خواتین کو درپیش ہیں۔ ملک بھر میں لڑکیوں کے سکولوں کو بند کیا گیا اور یہ باور کرایا گیا کہ بہت جلد ہی افغان بچیوں کے لئے ایک واضح طریقہ کار بنانے کے بعد دوبارہ تعلیمی ادارے کھول دئیے جائیں گے۔ تاہم ابھی تک کوئی اندازہ نہیں ہو رہا ہے کہ آیا لڑکیوں کے لئے سکول کے دروازے کھول دئے جائیں گے یا نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پچھلے پچاس سالوں میں افغان جنگ میں سب سے زیادہ متاثرہ افغان خواتین ہیں۔ طالبان کی حکومت میں آنے بعد افغان خواتین کے لئے روزگار کے دروازے بھی بند کر دیے گئے۔ تاحال کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آرہی ہے گھر سے باہر نکلنے کے لئے محرم کی شرط بھی عائد کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کی خواتین، انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) اور یو این اے ایم اے کی جانب سے افغان خواتین کے ساتھ باقاعدگی سے کی جانے والی مشاورت نے امید میں کمی اور ذاتی تحفظ کے حوالے سے خدشات کے رجحان کو اجاگر کیا ہے۔ امسال ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افغان خواتین کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹرعرفان اشرف نے بتایا کہ یہ افغانستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور طالبان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ان مسائل کو انسانی ہمدردی سے دیکھیں ناکہ مذہبی نقطہ نظر سے۔ انہوں نے بتایا کہ مسائل کو سیاسی نظریات کی بنیاد پرحل کرنے کی ضرورت ہے طالبان کوئی عسکریت پسند گروپ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی جماعت ہے جس کے پاس اقتدار ہے اورعوام کو ان سے امیدیں وابستہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ وہاں خواتین تعلیم حاصل کریں لیکن کچھ طالبان بھی ایسے لوگ ہیں جو خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں جو جواز پیش کرنے سے قاصر ہیں اور کہتے ہیں کہ انکو تھوڑا وقت لگے گا کہ وہ خواتین کو تعلیم کی اجازت دیں جس کے لئے وہ جلد پالیسی مرتب کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امارت اسلامی خواتین کی تعلیم کوکچھ عرصہ کےلئے موخر رکھنا چاہیتی ہے کیونکہ لگ ایسا رہا ہے کہ وہ یورپ اور امریکہ سے مزید فنڈنگ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان کی حکومت خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے اور انسانی حقوق کی پا مالی کو طول دینے کی کوشش کر رہی ہے جس سے ان ممالک میں اضطراب پیدا ہو جس میں کامیاب بھی ہو ئے ہیں۔ مغربی ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے کہ دو دہائیوں کی جنگ کا مقصد تھا کہ افغانستان میں دہشتگردی ختم ہو اور جہوری نظام قائم ہو لیکن امریکہ اور مغربی ممالک اس میں کامیاب تو نہ ہو سکے کیونکہ جس نظام کو لانے کے وعدے عوام سے کئے گئے تھے اس قسم کا نظام قائم نہ ہو سکا۔
قبل ازیں امارت اسلامی کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں افغانستان میں خواتین کی صورتحال سے متعلق اقوام متحدہ کے اداروں کی مشترکہ رپورٹ کے جواب میں کہا ہے کہ یو این اے ایم اے ایسی رپورٹس شائع کرکے موجودہ افغان حکومت کی سیاسی پیش رفت کو روک رہا ہے۔
امارت اسلامیہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ رپورٹس ملک کے موجودہ حقائق کی عکاسی نہیں کرتی اور یہ ادارے دیگر ممالک کے ساتھ افغانستان کے سفارتی تعلقات کے حوالے سے سازشیں کر رہے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہےکہ ملک میں خواتین کے حقوق کو یقینی بنایا جاتا ہے اور اس طرح کی خبریں بے بنیاد ہیں۔