"آپ کا فگر کافی اچھا ہے اور آپ فٹ کپڑے بنوایا کریں”
حدیبیہ افتخار
کل میں اپنی دوست کے پاس گئی باتوں باتوں میں عید کی شاپنک اور کپڑوں پر بھی گفتگو کی۔ عید کے لئے جوڑے کہا سے کس رنگ کے لینگے اور کہاں سے سلوانے ہیں۔ عید قریب آتی ہے تو پھر درزیوں کے نخرے بھی شروع ہوجاتے ہیں, ایک تو قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور دوسرا اگر کسی سوٹ میں ڈیزائن بنوانے کا بولے تو ایسے چھڑ جاتے ہیں گویا ہم فری میں کپڑے سلوا رہے ہیں۔
عید کے بارے میں بات چیت کے دوران میں نے اپنی دوست کو کسی سوچ میں گم ہوتے محسوس کیا تو ان سے وجہ پوچھی کہ کیوں پریشان سی ہوگئی۔ پہلے تو انھوں نے بتایا کہ کچھ خاص نہیں, لیکن پھر بتایا کہ پچھلی بار جب وہ اپنے کپڑے درزی کے پاس لے کر گئی تھی تو درزی نے کچھ عجیب سی باتیں کی۔ اس نے بتایا کہ اس وقت وہ دل ہی دل میں خود کو کھوس رہی تھی کہ درزی سے کپڑے بنوانے سے اچھا تھا وہ ریڈی میڈ سوٹ خرید لیتی۔
آخر کیا بات ہوئی ہے جو اسے اتنا پریشان کر رہی ہے؟ میں نے پوچھا تو اس نے تفصیلاً بات بتائی جسے سن کر میں بھی حیران رہ گئی۔ میری دوست نے بتایا کہ وہ درزی کے پاس کپڑے لے کر گئی تو پھوپھو بھی ان کے ساتھ تھی، اس نے کہا جب میں نے درزی کو کپڑے دیئے اور ایک ایک کر کے تمام ڈیزائنز سمجھائے کہ ایسا سوٹ بنایا ہے تو اس نے ناپ لینے کا کہا۔
جواب میں اس نے اپنا ایک بنا بنایا سوٹ درزی کو دیا کہ اسی سے ناپ لے کر کپڑے سی لیں جس پر درزی نے کہا کہ آپ کا یہ سوٹ کافی ڈھیلا ہے جس سے مجھے ناپ کی سمجھ نہیں آئیگی۔ اچھی فٹنگ کے لئے آپ کا ناپ ہی لیتا ہوں تاکہ کپڑے زیادہ اچھے بن جائیں۔
میری دوست نے کہا کہ اس کے دل میں بھی شک پڑھ گیا کہ شاید واقعی ہی کپڑوں میں خرابی آجائے گی خرابی سے بہتر سے ناپ لے لیں, لہذا وہ ناپ دینے پر راضی ہو گئی۔ جب ناپ لینے کا وقت آیا تو درزی نے دوکان میں پردہ کھینچا اور اسے آگے آنے کا بولا، جب درزی ناپ لے رہا تھا تو اس نے کئی بار محسوس کیا کہ وہ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا ہے اور ناپ لیتے وقت ایک ہی بات بار بار کہہ رہا تھا کہ "آپ کا فگر کافی اچھا ہے اور آپ فٹ کپڑے بنوایا کریں اس میں آپ زیادہ اچھی لگیں گی۔”
باتوں باتوں میں وہ میرا موبائل نمبر لینے کی بھی کوشش کررہا تھا اس نے کہا کہ کپڑے تیار ہونے پر کیسے آگاہ کرے گا۔ یہ باتیں سن کر وہ کافی عجیب سا محسوس کر رہی تھی میری دوست نے بتایا کہ موسم نارمل تھا لیکن اس کی ان عجیب نظروں اور باتوں سے وہ اتنا خوفزدہ ہوئی کہ اس کے پسینے چھوٹ گئے۔
میری دوست بتا رہی تھی کہ وہ جب گھر آئی تو پھر بہت دنوں تک اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ کیا اپنے لئے اچھے کپڑے بنوانے کا شوق بھی اس کا غلط تھا۔ کیا اسے وہاں جانا ہی نہیں چاہئیے تھا ، باقی بھی تو ہزاروں خواتین کپڑے بنوانے کے لئے درزی کے پاس جاتی ہوگی کیا یہ سب سے اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں، کیا وہ یہ سب برداشت کر جاتی ہیں یا انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور اگر انہیں نہیں پڑتا فرق تو آج وہ کیوں یہ سوچ سوچ کر خود کا ہلکان کر رہی ہے، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ان باتوں سے فرق پڑنا اور اس کے خلاف آواز اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔
اس کی یہ باتیں سن کر میں نے ایک ہی بات سوچی کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کسی مرد کو عورت کو ہراساں کرنے کا موقع ملے اور وہ یہ موقع ہاتھ سے جانے دے؟ جواب ملا نہیں!
یاد رہے بلاگ کے اس موضوع سے سب لوگوں کا اتفاق رائے ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی تمام مرد حضرات پر انگلی اٹھائی جارہی ہے، ہاں ان مردوں پر تنقید ضرور کی جارہی ہے جو بری طرح خواتین کے معاملے میں دل کے کمزور ہیں۔
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائٹر اور بلاگر ہیں۔
نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔