دہشت گردی کے واقعات میں کمی، خیبر پختونخوا میں اچھے کی امید بن گئی
حسام الدین
خیبر پختونخوا میں انتخابات ہونے کے بعد جہاں سیاسی استحکام کی امید پیدا ہوئی ہے وہیں پر گزشتہ اور رواں سال کے پہلے دو ماہ کے موازنے سے دہشت گردی سے متعلق بھی مثبت رجحانات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 کے پہلے دو ماہ میں جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حملوں میں زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تو اس کے مقابلے میں رواں سال کے پہلے دو ماہ دہشت گرد نشانہ بنے ہیں۔ ان معاملات پر نظر رکھنے والے افسر اور ماہرین کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کاروائیاں کم ہونے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں اس کی وجہ افغانستان میں امارت اسلامیہ کی جانب سے پاکستان کے مطالبے پر پاکستانی تنظیموں پر دباو ڈالنا بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ایک وجہ ہے پاکستانی سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے زیادہ بہتر تیاری سے مقابلہ کررہے ہیں جس سے دہشت گردوں کو بھی زیادہ نقصان ہورہا ہے۔
گزشتہ سال کے جنوری میں دہشت گردی کے مختلف اقسام یعنی دہشت گرد حملوں، اغوا، بھتہ، ٹارگٹ کلنگ اور ٹیررفنانسنگ کے 49 واقعات ہوئے تھے جبکہ رواں سال جنوری میں یہ واقعات گٹھ کر 36 ہوگئے ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں پولیس پر حملوں میں جہاں 101 پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے تھے تو رواں ماہ پولیس کو ہونے والا نقصان اس سے کئی گُنا کم ہے۔
سال 2023 کے جنوری میں 23 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے تو رواں سال کے پہلے ماہ میں ان دہشت گردوں کے مرنے کی تعداد 25 ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال کے فروری میں اگر دہشت گردی کے 51 واقعات ہوئے تھے تو رواں فروری میں یہ تعداد ابھی 33 ہے۔
ماہرین کے مطابق ان واقعات کے کم ہونے میں سیکورٹی فورسز کے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کی بڑھتی تعداد نے بھی کردار ادا کیا۔ گزشتہ سال کے پہلے دو ماہ میں اگر کل ایک سو 85 ایسے آپریشن ہوئے تھے تو رواں سال کے پہلے دو ماہ میں یہ تعداد تین سو پانچ ہے جس نے دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانے چھوڑ کرجانے پر مجبور کیا اور یوں وہ مزید حملوں کے قابل نہ رہے۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے قلع قمع کرنے کے لئے بنائے گئے انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے سینئر افسر نجم الحسنین نے بتایا کہ دہشت گردوں کی جانب سے حملوں کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ڈیپارٹمنٹ میں ایک خصوصی فورس بنائی گئی جو دہشت گردوں کے خلاف تمام مخصوص ہتھیاروں اور آلات سے لیس ہے یہ ایسے ہتھیار ہیں جو عمومی طور پر عام پولیس کے پاس دستیاب نہیں ہوتے جن میں خودکار آتشیں اسلحہ، سنائپر رائفلز، نائٹ ویژن ڈیوائسز اور بکتر بند گاڑیاں شامل ہیں۔
ایس ایس پی آپریشنز سی ٹی ڈی نجم الحسنین کا کہنا تھا کہ اس فورس کو سویٹ کہتے ہیں جو ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے جنگی حربوں سے آشنا ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ کامیابی ٹی ٹی پی، داعش، جماعت الاحرار اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے گرفتار ارکان کی انفارمیشن کی وجہ سے ملی جنہوں نے دوران حراست جو راز اُگلے وہ بہت ہی کارآمد ثابت ہوئے۔
ان واقعات میں کمی کی بڑی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں، کے جواب میں سینئر صحافی رسول داوڑ کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ رواں سال کا موازنہ جب پچھلے سال کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ واقعات ضرور ہوئے ہیں لیکن جس طرح خطرہ تھا کہ سردیوں میں سرحد پارافغانستان سے شدت پسند پاکستان آنے کی کوشش کریں لیکن ایسا بھی نہیں ہوا اور جو واقعات ہو بھی رہے ہیں ان کی ذمے داریاں بھی وہ تنظیمیں قبول کرنے سے گریزاں ہیں جو پہلے انہیں قبول کرتی تھیں۔
رسول داوڑ کا کہنا تھا کہ دوسرے ناموں سے کاروائیوں کی ذمے داریاں قبول کرنے سے بھی لگتا ہے کہ شاید وہ اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں اور ساتھ ہی کسی بڑی کاروائی کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوں یا ان کے اندر اپنے اختلافات بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس میں جو سب سے اہم وجہ ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اور ان عناصر کے بیچ کسی سطح پر مذاکرات بھی ہورہے ہو جس کے کچھ اشارے بھی ملے ہیں تاہم ابھی تک دونوں جانب سے اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جن جرائم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی وہ دہشت گرد حملے، بھتہ، اغوا اور ٹارگٹ کلنگ ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں لوگ ان جرائم میں ملوث پائے گئے اور ان کے خلاف کاروائیاں ہوئیں تو یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ یہ عناصر پہلے اس قابل تھے جو اتنی زیادہ کاروائیوں میں نشانہ بنے لیکن اب اندازہ لگایا جارہا ہے کہ پاکستانی افواج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہتر حکمت عملی نے ان کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔
اس سارے عرصے کے دوران پولیس کی استعداد میں بھی بہتری آئی ہے اور وہ پولیس جو پہلے کسی بھی بڑے دہشت گرد حملے میں زیادہ نقصان اٹھاتی تھی اب وہ ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے زیادہ تیار ہے اور اس کا نقصان مسلسل کم ہورہا ہے۔
پولیس آفیسر نجم الحسنین کے مطابق ان کامیابیوں کی بڑی وجہ پولیس کا ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مسلسل اور موثر رابطہ ہے جہاں سے ملنے والی معلومات نے پولیس کو زیادہ بہتر طریقے سے مقابلہ کرنے کے قابل بنایا اور خود انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے اندر سویٹ کے علاوہ بھی ایک موثر فورس سی ٹی ایف کے نام سے کام کررہی ہے جس میں ڈی ایس پی اور انسپکٹر کی سطح کے افسر تعینات کئے گئے ہیں جن کا مستقل فوکس صرف دہشت گرد حملے اور بھتہ خوری ہے۔
نجم الحسنین کا کہنا تھا کہ صوبے میں نہ صرف سی ٹی ڈی کے تھانوں کی تعداد سات سے بڑھا کر پندرہ کردی گئی ہے بلکہ ان میں تعینات ایس پیز بھی سات سے پندرہ ہوئے ہیں جن کے پاس عملہ بھی دہشت گردوں سے لڑنے کے لئے پوری طرح تیار اور ہرقسم کے اسلحے سے لیس ہے۔
گزشتہ دنوں جب عین عام انتخابات کے دن یعنی 8 فروری کو دہشت گردی کے واقعات شروع ہوئے تو یہ احساس پیدا ہوچلا تھا کہ شاید دہشت گرد تنظیمیں ہر صورت اپنی موجودگی کا تاثر برقرار رکھنا چاہتی ہیں تاہم ان کو ملنے والے جواب نے انہیں خاموش رہنے پر مجبور کیا ہے۔