لائف سٹائل

مادری زبان میں تعلیم کا حصول ترقی کا ضامن ہے؛ ماہرین تعلیم

 

رفاقت اللہ رزڑوال
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ مادری زبانوں میں سکھائی جانے والی تعلیم بچوں کو تعلیم کے اصل مقاصد اور شعور سے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر پاکستان میں ہر سال مادری زبانوں کی بقاء کی جدوجہد کے باوجود بھی مادری زبانوں کو خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
ہر سال 21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مادری زبانیں پشتو، سندھی، بلوچی اور پنجابی بھی اردو کے مقابلے میں اپنی حیثیت کھو رہی ہے جس سے ان اقوام کے تشخص کی بقاء خطرے میں پڑنے کا خطرہ ہے۔

آج خیبرپختونخوا میں مادری زبانوں میں تعلیم کے حصول اور اسے دفتری زبان بنانے کیلئے مختلف علاقوں میں سکول کے اساتذہ نے اپنے طلباء کے ساتھ ریلیاں نکالی اور مطالبہ کیا کہ حکومت عدالتی حکم پر عمل درآمد کرکے تعلیم کو اپنی مادری زبانوں میں عام کریں۔

اس سلسلے میں چارسدہ پریس کلب کے سامنے محکمہ تعلیم کی جانب سے ایک ریلی کا انعقاد ہوا۔ ریلی سے خطاب کے دوران ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر محمد زبیر خلیل نے بتایا کہ اپنی مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کیلئے بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے بڑی قربانیاں دی ہے جس کے عوض اقوام متحدہ نے 21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
انہوں نے بتایا کہ مادری زبانوں میں علم کا حصول ہر شہری اور بچے کا بنیادی حق ہے مگر بدقسمتی سے یہاں پر حالات یہ ہے کہ مادری زبانوں کی ترویج نہ ہونے کے باعث بڑے اور بچے اپنی مادری زبان بھول رہے ہیں۔
"مادری زبان ہماری تشخص اور پہچان ہے اگر اس کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ اُٹھائے گئے تو ہماری پہچان ختم ہوجائے گی۔ پھر ہمیں کوئی قوم ہی تسلیم نہیں کرے گا۔ اسکے علاوہ ایک بچہ جتنا آسانی سے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرسکتا ہے وہ کسی دوسری زبان میں حاصل نہیں کرسکتا”۔

زبیر خلیل کہتے ہیں کہ مادری زبان میں علم حاصل کرنے سے بچہ حقیقی زندگی سے روشناس ہو جاتا ہے اور وہ عملی طور پر اپنی تعلیم کو زندگی میں بروئے کار لاسکتا ہے جس سے ایک قوم کی ترقی ممکن ہوجاتی ہے۔
گزشتہ سال پشاور ہائی کورٹ نے اکتوبر میں ایک حکم صادر کیا تھا کہ صوبائی حکومت محکمہ تعلیم کو ہدایات دیں کہ وہ علاقائی اور مادری زبانوں کو تعلیم اور نصاب کا حصہ بنائیں۔ اسی طرح گزشتہ سال سندھ اسمبلی سے متفقہ طور پر ایک قرارداد پاس کیا گیا تھا جس میں صوبوں میں بولی جانے والی مادری زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر ایک سال گزرنے کے باوجود ان احکامات اور مطالبوں پر عمل درامد نہیں کیا گیا۔

ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں سب سے بڑی زبان پنجابی ہے جسے تقریباً 38 فیصد شہری بولتے ہیں جبکہ پشتو زبان ملک کی دوسری بڑی زبان ہے جس کی شرح تقریباً 18 فیصد ہے۔

ضلع چارسدہ کے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسر ڈاکٹر عبدالمالک نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ تین دہائیوں سے زائد درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہے اور اس دوران ان کا تجربہ رہا ہے کہ طلباء جتنا اپنی مادری زبان کے ذریعے تعلیم کو سمجھتے ہیں وہ کسی دوسرے زبان میں نہیں جان سکتے۔

انہوں نے بتایا "دیگر زبانیں سیکھنا بھی مہارت ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انگریزی زبان سیکھنا ایک کامیاب انسان کی پہچان ہے۔ میں آپ کو روس، چین اور جاپان کی مثال دیتا ہوں کہ وہ انگریزی نہیں بولتے مگرآج انہوں نے اتنی ترقی کی ہے کہ وہ آج دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں”۔
عبدالمالک کہتے ہیں کہ حکومت مادری زبانوں کو تعلیم کا حصہ بنانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے اور اس کے لئے ہماری تجاویز یہ ہیں کہ وہ کم از کم بارہویں جماعت تک مادری زبانوں کے مضامین کو نصاب کا حصہ بنا دیں تاکہ مستقبل میں مادری زبانیں محفوظ رہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق دنیا بھر میں 8324 زبانیں موجود ہیں جن میں تقریباً سات ہزار تک زبانیں بولی جاتی ہے جبکہ موجودہ حالات میں 1500 تک زبانیں ختم ہونے کے قریب ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button