سیاست

"ووٹ پول کرنے سے زیادہ اہم میرے لیے جیل سے رہائی پانا ہے”

نسرین جبین

 

"انتخابی عمل میں حصہ لینے اور ووٹ پول کرنے سے کئی زیادہ اہم میرے لیے جیل کی چار دیواری سے رہائی حاصل کرنا ، اس کے علاوہ بھی کئی مسائل ہیں، میری سوچ یہاں اٹکی ہے کہ کب اپنے بچوں کے پاس واپس جاؤں گی۔” یہ کہنا ہے سنٹرل جیل پشاور کی قیدی عائشہ کا جو کہ ووٹ پول کرنے کے مراحل میں عدم دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے۔ دوسری طرف سینٹرل جیل پشاور میں صرف پانچ خواتین نے سال 2024 کے انتخابات کے لیے ووٹ پول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور ان کے نام متعلقہ طریقہ کار کے ذریعے متعلقہ ریٹرننگ افسران کو ارسال کر دئیے گئے ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 93 (ڈی) کے مطابق جیل میں نظربند یا زیر حراست شخص پوسٹل بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرا سکتا ہے۔

الیکشن ایکٹ 27 کے سیکشن 26 کے مطابق ہر ایک شخص انتخابی علاقے میں بطور ووٹر اس وقت اندراج کا حق دار ہوگا، اگر وہ پاکستان کا شہری ہے اور اس کی عمر 18 سال سے کم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کسی مجاز عدالت کی طرف سے اسے ناقص دماغ قرار نہ دیا گیا ہو اور سیکشن 27 کے تحت انتخابی علاقے کا رہائشی سمجھا جاتا ہو۔

الیکشن کمیشن کی عبوری فہرست کے مطابق چاروں صوبوں اور اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے لیے مجموعی طور پر 7713 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے، قومی اسمبلی کے لیے مرد امیدواروں کی تعداد 7242 اور خواتین امیدواروں کی تعداد 471 ہے۔ چاروں صوبوں سے قومی اسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشستوں پر 459 امیداروں نے کاغذات جمع کرائے۔ چاروں صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر 1365 امیدواروں کے فارم جمع ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کے لیے 39 خواتین امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ کے پی کے اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر 321 فارم وصول کیے گئے۔ کے پی کے میں قومی اسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشستوں پر 97 کاغذات جمع کرائے گئے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے 8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات کے لیے جاری کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 ہے جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 92 لاکھ 63 ہزار 704 ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 93 لاکھ 22 ہزار 56 ہے۔ خیبر پختونخوا میں مجموعی ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 19 لاکھ 28 ہزار 119 ہے، جسمیں مرد ووٹرز ایک کروڑ 19 لاکھ 44 ہزار 397 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 99 لاکھ 83 ہزار 722 ہے۔

جب بھی عام انتخابات ہوتے ہیں پولنگ اسٹیشن پر ریگولر ووٹ کے علاوہ پوسٹل بیلٹ یعنی ڈاک کے ذریعے بھی ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت موجود ہے۔ اس مرتبہ بھی الیکشن کمیشن کی ہدایت پر ریٹرنگ افسران نے صوبے کے تمام اضلاع میں پوسٹل بیلٹ کے فارم جمع کرانے کا حکمنامہ جاری کر دیا ہے۔ جس کے مطابق کہا گیا ہے کہ انہیں پوسٹل بیلٹ پیپرز جاری کیے جائیں گے لہذا وہ تمام افراد جو ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں ، جن میں وہ تمام سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ، جن کی ڈیوٹی یا رہائش اپنے حلقے سے باہر ہو، وہ تمام افراد باہم معذوری والے جو سفر کرنے کے قابل نا ہو اور ان کے پاس اپنی معذوری والا شناختی کارڈ نادرا کی طرف سے جاری کیا گیا ہو۔

وہ افراد جو حوالات یا قید میں ہوں الیکشن ڈیوٹی کے لیے تعینات کردہ تمام ملازمین جن کی ڈیوٹی اپنے پولنگ اسٹیشن سے باہر ہووہ پوسٹل بیلٹ پیپر کے لیے ریٹرنگ افسران کے دفتر سے درخواست فارم وصول کرکے اپنے محکمے سے تصدیق کروا کر ریٹرنگ افسران کے پاس جمع کریں۔

الیکشن کمیشن کے ترجمان سہیل احمد کے مطابق قید مرد و خواتین کو الیکشن سے کم ازکم پندرہ روز پہلے قبل اپنے حلقے کے ریٹرننگ افسر کو پاکستان پوسٹ کے ذریعے درخواست بھیجنی ہوگی، جس کے بعد ریٹرننگ افسر اپنے ووٹنگ لسٹ کی مدد سے درخواست کی تصدیق کرے گا، اگر قیدی کا نام اسی حلقے میں ہوگا تو ریٹرننگ افسر اسے پوسٹل بیلٹ جاری کرے گا جبکہ الیکشن سے کم از کم بیس روز پہلے ریٹرننگ افسر جیل انتظامیہ کو دو لفافے بھیجے گا، جس میں ریٹرننگ افسر کا ایڈریس درج ہوگا۔

ان میں ایک چھوٹا اور دوسرا بڑا لفافہ ہوگا، قیدی جس امیدوار کو ووٹ دینا چاہتا ہے، کا نام پوسٹل بیلٹ میں درج کرکے چھوٹے لفافے اور پھر بڑے لفافے میں ڈال دے گا۔ پھر ریٹرننگ افسر کا ایڈرس درج کرکے قیدی وہ لفافہ جیل انتظامیہ کو دے گا، جس کے بعد جیل انتظامیہ ڈاک کے ذریعے ریٹرننگ افسر کو واپس بھیج دیں گے۔ اس تمام عمل میں کوئی چارجز نہیں ہیں۔ ’سہیل احمد نے کہا کہ انتخابات کے حتمی نتائج کے اعلان کے دوران ریٹرننگ افسران امیدواروں کے سامنے پوسٹل بیلٹ کے ذریعے دیئے گئے، ووٹوں کی گنتی کریں گے اور پھر انہیں حتمی نتائج کے اعدادوشمار میں شامل کریں گے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر جیل خانہ جات ماجد غفران کے مطابق خیبر پختونخوا میں مردوں کے تعداد050 14 ہے جبکہ خواتین قیدیوں کی تعداد تین سو ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو ووٹ پول کرنے کا حق قانون نے دیا ہے اور جو الیکشن کمیشن ہے۔ ان کی ہدایات کے مطابق قیدیوں کو تمام ترسہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور قیدیوں کو ان کی مرضی کے مطابق اپنا حق رائے دہی استعمال ضرور کرنا چاہیے یہ انکا قانونی حق ہے۔

الیکشن کمیشن کی ہدایت کے مطابق سینٹرل جیل پشاور میں قیدیوں کو حق اپنا ووٹ پول کرنے کے لیے پوسٹرز لگا دیئے گئے تھے اور فارم تقسیم کر دیئے گئے تھے اور ان کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنا شناختی کارڈ کی کاپی جمع کروائیں اور باقی تمام تر تفصیل بھی جمع کروائیں کہ وہ کس حلقے سے ہیں اور ان کا ووٹ کس علاقے میں ہے تاکہ ان کی تمام تر تفصیلات اور ووٹ پول کرنے کی خواہش کے حوالے سے فارمز پر کر کے الیکشن کمیشن کو بھجوایا جائے اور اس کے بعد پھر الیکشن کمیشن کی طرف سے بیلٹ پیپرز وصول ہونے کے بعد متعلقہ االیکشن کمیشن کو یا ریٹرنگ افسران کو یہ ووٹ پول شدہ ووٹ ڈاک خانے کے ذریعے پوسٹل بیلٹ کے تحت بھجوا دیا جائے گا۔

ڈپٹی سپریٹنڈنٹ جیل خانہ جات پشاور اختر حسین شاہ نے بتایا کہ ویسے تو جیل میں قیدیوں کی تعداد ایک جیسی نہیں رہتی روزانہ تبدیل ہوتی ہے لیکن اوسط تعداد سنٹرل جیل پشاور میں 38— 40کے درمیان رہتی ہے۔جن میں چند خواتین کے ساتھ بچے بھی شامل ہیں اور اس وقت خواتین قیدیوں کی تعداد 38 ہے جن میں اکثریت ان کی ہے جو ووٹ کی اہل ہیں اور شناختی کارڈز رکھتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم تمام تر سہولیات مرد و خواتین قیدیوں کو فراہم کرتے ہیں اوراس مرتبہ بھی نوٹس بورڈ لگایا اور فارمز تقسیم کیے ہیں جنہیں ہم متعلقہ ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افسران کو بھیج دیں گے تاکہ اگر ان کی دلچسپی ہو تو ووٹ پول کر لیں تاہم گزشتہ انتخابات میں کسی خاتون قیدی نے سنٹرل جیل پشاور سے ووٹ پول نہیں کیا۔

ادارہ شماریات پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی 22 کروڑ 4 لاکھ 25 ہزار 254 ہے۔ اس میں سے مردوں کی تعداد 11 کروڑ 16 لاکھ 93 ہزار 464 جبکہ خواتین کی 10 کروڑ 87 لاکھ 31 ہزار 790 ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں خواتین کی تعدداد15 لاکھ 62ہزار 440ہےاوراگر ضلع کی سطح پرپشاور میں 35 لاکھ 99 ہزار700 ہے۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) کی خواتین ونگ کی کنوینراور سابق رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور نے کہا کہ ملک بھرکی جیلوں میں موجود نا صرف عورتوں بلکہ قیدی مردوں کا بھی اپنے ووٹ کا استعمال ضروری ہے تا کہ اپنا حق استعمال کر سکیں اور ملک کے لیے ہونے والے ایک اہم فیصلے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک بھر میں مر د و خواتین قیدیوں کے لیے مشترکہ ہی سہی لیکن پولنگ اسٹیشن بنائے جائیں پوسٹل بیلٹ کا طریقہ پیچیدہ ہے اس لیے ہزاروں مرد و خواتین قیدی اپنے اس حق کا استعمال کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ شعبہ خواتین کی صوبائی صدر اور دو مرتبہ قومی اور ایک مرتبہ صوبائی اسمبلی کی رکن رہنے والی طاہرہ بخاری نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین کی ووٹ پول کرنے کی شرح ویسے ہی بہت کم ہے اور پسماندہ طبقے جن میں مذہبی اقلیتی برادری، افراد باہم معذوری، خواجہ سرا کمیونیٹی اور خواتین میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قانون ساز ادروں میں ان کی نمائندگی ہوسکے اور ان کے مسائل اجاگر ہو کر حل ہو سکیں۔ اگر چہ جیلوں میں ٹی وی کی سہولت موجود ہوتی ہے اور انہیں معلومات تو ہوتی ہے لیکن ان کی ووٹ پول کرنے کے طریقے کو آسان بنایا جائے۔

جیلوں میں ریفارمز کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم حوا لور کی چیئر پرسن خورشید بانو نے کہا ہے کہا کہ انتخابات میں اپناحق رائے دہی کے استعمال کرنے کے حوالےغیر سرکاری تنظیمیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔خواتین میں آگاہی نا ہونے کی وجہ سے پچھلے الیکشن میں خواتین قیدیوں نے حصہ نہیں لیا جو کہ قابل توجہ امر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ قیدی ووٹرز کو اس بات کی بھی تسلی ہو کہ ان کا ووٹ ضائع نہیں ہو گا بلکہ الیکشن کے روز متعلقہ حلقے میں ان کے پسندیدہ امیدوار کے ووٹوں میں شا مل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اجازت دی جائے کہ وہ سیاسی سرگرمیاں انتخابات کے دوران جیلوں میں کریں تاکہ قیدیوں میں سیاسی شعور پیدا کیا جا سکے۔

نوٹ۔ یہ سٹوری ٹی این این کے زیر نگرانی ہونے والی تھامسن فاونڈیشن کی الیکشن رپورٹنگ فیلوشپ کا حصہ ہے۔ 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button