سعدیہ بی بی
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے علاقے میں اب بھی بہت سی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور نوکری کرنے کے مواقع بہت کم ہی ملتے ہیں۔ ایسے بہت سی لڑکیاں ہیں جو اب بھی تعلیم سے محروم ہیں کیونکہ ان کے والدین اس کام میں ان کا ساتھ نہیں دیتے اور ان پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے برعکس دیکھا جائے تو ایسے بہت سے والدین ہیں جو بیٹیوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی بہتر مستقبل کے لئے ان کو سپورٹ کرتے ہیں اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرتے ہیں تاکہ وہ بھی معاشرے میں سر اٹھا کر چل سکے۔
آپ میں سے زیادہ تر لوگوں نے سنا ہوگا کہ افغانستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین اپنے بچیوں کو نہیں پڑھاتے اور جب بیٹی جوان ہوجائے تو اس کی شادی کروا دیتے ہیں لیکن میں آپ کو بتاتی چلو کہ ابھی بھی کچھ افغان خاندان ایسے ہیں جو اپنی بیٹیوں کی تعلیم اور کامیابی کو فخر سمجھتے ہیں۔
پشاور میں رہائش پذیر افغانستان سے تعلق رکھنے والی گلالئی بھی ان خوش نصیب بچیوں میں شامل ہیں جن کو تعلیم حاصل کرنے میں والدین کی سپورٹ حاصل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد ان کے رشتہ داروں نے والدین سے کہا کہ بیٹی جوان ہو گئی ہے جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا ہے، اب پڑھائی لکھائی چھوڑ کرکے اس کی شادی کروا دو لیکن والدین نے ان سے کہا کہ گلالئی جب تک اعلیٰ تعلیم کرکے بڑی افسر نہ بن جائے تب تک اس کی شادی کا نہیں سوچیں گے۔ گلالئی اپنے والدین کے اس فیصلے سے بہت خوش تھی۔ کالج میں داخلہ کروانا تھا لیکن اس کے والد کو ان چیزوں کی بالکل سمجھ نہیں تھی۔ گلالئی نے اپنے والد کو بتایا کہ میری ایک دوست ہے جو ہماری مدد کر سکتی ہے۔
گلالئی نے اپنے چھوٹے بھائی کو میری طرف بھیجا اور کہا کہ تمہیں میرے والد صاحب بلا رہے ہیں۔ میں حیران ہوئی اور ڈر گئی کہ ان کے والد نے مجھے کیوں بلایا ہے۔ امی سے اجازت لے کر ان کے گھر گئی۔ گھر داخل ہوئی تو گلالئی کے والد سامنے بیٹھے تھے اور گلالئی کھڑی تھی۔ مجھے ماحول تھوڑا غصیلہ لگا۔ لیکن انہوں نے بہت عزت اور احترام سے بات کی اور بولے بیٹا میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی بھی تمہاری طرح پڑھے۔ یہ سن کر مجھے گلالئی کے لیے بے حد خوشی ہوئی۔ گلالئی بھی بہت خوش دکھائی دے رہی تھی اور مسکرا رہی تھی۔
والد صاحب نے کہا کہ مجھے کالج میں داخلہ کروانے کی سمجھ نہیں اگر تم میری بیٹی کے ساتھ جا کر اس کا داخلہ کروا دو۔ میں نے بھی ہامی بھری اور ہاں بولا کہ میں اس کا داخلہ کروا دوں گی کیونکہ مجھے خوشی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کی پڑھائی میں اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ میں نے دوسرے دن ہی جا کر اس کا داخلہ کروا دیا۔ جب یہ بات اس کے رشتہ داروں کو پتہ چلی تو ان کو اچھا نہیں لگا اور آئے روز طعنے مارتے لیکن اس کے والد صاحب کو کسی کی پرواہ نہیں تھی بس وہ یہی چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی کی تعلیم کا کوئی حرج نہ ہو۔ اچانک حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کو ان کے ملک ( افغانستان ) بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا اور گلالئی کے والد کو فکر لاحق ہو گئی کہ میری بیٹی کی تعلیم ادھوری نہ رہ جائے۔ انہیں فکر تھی کہ اگر وہ وطن واپس چلے گئے تو وہاں ان کی بیٹی نہیں پڑھ سکے گی۔ گلالئی کے والد اپنی بیٹی کی تعلیم کی خاطر افغانستان چلے گئے اور وہاں سے اپنی بیٹی کے لیے سٹوڈنٹ ویزا بنوایا۔ اب کم از کم ان کا یہ ڈر ختم ہوا کہ ان کی بیٹی پڑھ نہیں سکے گی اگر ان کا خاندان واپس چلا بھی جائے لیکن گلالئی یہاں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کر لے گی۔
لوگ اکثر کہتے ہیں لڑکیوں کو تعلیم کیوں دلوائیں اور ان پر اتنا خرچا کیوں کرے جب اس نے آگے جا کر چولہا چوکی ہی کرنی ہے اور گھر سنبھالنا ہے۔ لیکن یہاں پر گلالئی کے والد کی سوچ مختلف ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ عورت گھر نہ سنبھالے بلکہ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ اسے تعلیم ملے تاکہ وہ گھر کے ساتھ ساتھ نسلوں کو بھی اچھے سے سنبھالے۔
میں گلالئی کے والد کی اس بات سے متفق ہوں کیونکہ عورت کے دم سے یہ معاشرہ قائم ہے جو اپنی گود میں نسلوں کو اس قابل پروان چڑھاتی ہے۔ اب جس نے نئی نسل کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ اگے چل کر اس معاشرے کو سنبھال سکے جب وہ خود اس قابل نہ ہو تو وہاں نئی نسل کیا کرے گی اور کیسے ترقی کرے گی۔
آج کے والدین اپنی بچیوں کو بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ حصول تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس کی بہت بڑی مثال گلالئی کے والد صاحب بھی ہیں اور پھر یہی کامیاب بچیاں کل کو میڈیکل، انجینیئر، سائنس، تجارت، بنکاری اور صحافت نیز ہر شعبے میں اپنا کمال دکھاتی ہیں۔ اس ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کرتی نظر آتی ہیں۔
میرے خیال میں ” بہترین قومیں بہترین مائیں ہی بنا سکتی ہیں "۔ تو اپ بھی گلالئی کے والد صاحب کی طرح اپنی بچیوں کو پڑھائیں لکھائیں تاکہ وہ ایک بہتر معاشرہ بنائیں اور ملک کا نام روشن کریں۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طلبہ ہیں اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی ہیں۔