لائف سٹائل

ماحولیاتی تبدیلی: کتاب سے اک ڈراؤنے خواب تک

فہیم آفریدی

اپنے بچپن، اور سکول کے زمانے کی ‘کمانڈر سیف گارڈ’ اور اِس جیسی دیگر سرگرمیوں کی یادیں لے کر پشاور کے شہاب الدین آج سے دو تین سال قبل کلائمیٹ چینج اور پانی کی قلت بارے پڑھ کر تھوڑے ‘موٹیویٹ’ ہو گئے تھے، تاہم یہ ‘موٹیویشن’ اتنی اور ایسی نہیں تھی کہ اُسے عملی اقدامات اٹھانے پر اکساتی۔ ہاں! اتنا ضرور تھا کہ اِس حوالے سے وہ خود ‘سینسیٹائز’ ہو چکے تھے۔

لیکن پھر 2022 میں جب پاکستان میں آئے فلڈز، اِن کی وجوہات اور ملک اور قوم کو پہنچنے والے جانی و مالی نقصانات سے آگاہی کے ساتھ ساتھ جب 2023 میں پشاور میں پڑنے والی ‘سبی اور جیکب آباد سے بھی زیادہ’ گرمی دیکھی تو اُسے پتہ چلا کہ جو چیزیں وہ کتابوں میں یا سبجیکٹ میں پڑھتے تھے وہ حقیقت بن کر سامنے آ رہی ہیں۔ یہی وہ اصلی موٹیویشن تھی جس نے شہاب اور اُس کی ٹیم کو ‘ کلائمیٹ ڈائیلاگ پشاور’ (سی ڈی پی) نامی پراجیکٹ کی صورت میں عملی اقدامات اٹھانے پر آمادہ و کمربستہ کیا۔

‘کلائمیٹ ڈائیلاگ پشاور’: کیوں اور کس لئے؟

ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں شہاب نے بتایا کہ انہوں نے جس عملی اقدام کا انتخاب کیا ہے وہ ‘لانگ ٹرم اِن نیچر’ ہے:

”ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہم سکول سٹوڈنٹس کو انگیج کریں۔ اور سکول سٹوڈنٹس کو انگیج کر کے ہی ہم ایک فیوچر بنا سکتے ہیں جو ‘کلائمیٹ سینسیٹائزڈ ہو گا۔ ہمارے وقتوں میں سکولوں میں کمانڈر سیف گارڈ جیسی ایکٹیوٹیز ہوتی تھیں جو آج بھی ہمیں یاد ہیں۔ لیکن آج کل ہم نے نہیں دیکھا کہ سکولز میں اِس قسم کی ایکٹیوٹیز ہوں۔ اگر ہم ابھی سے بچوں کو اس حوالے سے سینسیٹائز کرنا اور آگاہی دینا شروع کریں تو ہمارا فیوچر ایسے تیار ہو گا جو کہ حقیقی چینج لا سکے گا اور اِس خطرے سے نمٹنے کی طاقت اُس میں آ سکے گی۔”

شہاب کے مطابق کلائمیٹ ڈائیلاگ پشاور پراجیکٹ تین مرحلوں پر مشتمل تھا: اویئرنس، انگیجمنٹ اور ڈائیلاگ کا قیام:

”پہلے ہم نے پشاور، خیبر اور مہمند کے 15 سرکاری اور پرائیویٹ سکولز میں آگاہی سیشنز کرائے۔ ہم نے 20 صفحات کا ایک کتابچہ بھی تیار کیا جو کہ آسان زبان میں تھا؛ پشتو، اردو اور انگریزی میں تاکہ عام عوام، گھر والوں، بچوں اور نوجوانوں کو اِن تصورات کی سمجھ آ سکے۔ ہم نے کلائمیٹ چینج، اس کی وجوہات، اس کے اثرات، اس کے حل، اور کلائمیٹ چینج سے نمٹنے میں فرد واحد کا کردار، اِن پانچ چھ موضوعات پر بات کی۔ اور آخر میں ایسے چھوٹے چھوٹے دس بارہ کام، کلائمیٹ چینج سے نمنٹنے کیلئے، جو ہم اپنی روزمرہ زندگی میں کر سکتے ہیں، اُن کی فہرست مرتب کی۔”

دوسرے مرحلے، انگیجمنٹ، میں تین چار مقابلے کروائے گئے: ویڈیوگرافی، فوٹوگرافی، آرٹس، اور پوسٹر کمپیٹیشن، تاکہ کلائمیٹ چینج کے حوالے سے جو عام لوگوں کے خیالات ہیں اُن کو عملی شکل میں ایک پراڈکٹ کی صورت میں سامنے لایا جا سکے: "ہمیں پتہ ہے کہ تخلیقی قوتیں مسائل سے نمٹنے کے لئے اپنا ایک شاندار حل پیش کرتی ہیں۔ سو یہی مقصد تھا کہ نوجوان اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کلائمیٹ چینج جیسے خطرے کے بارے میں کچھ بنا سکیں۔ اِس کے علاوہ ہم نے بچوں اور نوجوانوں کیلئے دو دو، اور ڈیڑھ منٹ کی اینیمیشن ویڈیوز بھی بنائی تھیں تاکہ کلائمیٹ چینج کے بارے میں گفتگو عام زبان میں ہو سکے۔ اِن ویڈیوز میں بھی یہ پیغام دیا گیا تھا کہ کلائمیٹ چینج کے خطرات کیا ہیں، اور وہ ہماری زندگی، پانی اور ہوا کو کیسے متاثر کر رہا ہے اور اِس حوالے سے ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔”

تیسرے اور آخری مرحلے، ڈائیلاگ کا قیام، بارے شہاب نے بتایا کہ اِس میں ہم نے چھ سات موضوعات پر بات کی: "اور اُس میں ہم نے حکومت، این جی اوز، پرائیویٹ سیکٹر، یونیورسٹی کے اساتذہ، اور صحافیوں کو ایک میز پر ساتھ بٹھایا۔ صحافیوں نے کلائمیٹ چینج کے حوالے سے میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالی۔ یونیورسٹی کے اساتذہ نے اِس حوالے سے مزید ریسرچ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ پرائیویٹ سیکٹر کو جو مدعو کیا گیا تھا تو انہیں بتایا گیا کہ اندسٹریز کیسے کلائمیٹ چینج کے خطرات سے نمٹ سکتی ہیں۔ اُن سے یہ جاننے کی بھی کوشش کی گئی کہ وہ کون کون سے ایسے پراجیکٹس کر رہی ہیں جن میں کلائمیٹ چینج سے نمنٹنے کا کوئی حل موجود ہے۔ خیبر پختونخوا کی انوائرنمینٹل ایجنسی جیسے حکومتی اداروں، ہیل ویٹاس جیسی انٹرنیشنل این جی اوز، اور نیشنل ڈیزاسٹر رسک منیجمنٹ فنڈ، اِن تمام لوگوں کو ایک جگہ لانے اور ایک ڈائیلاگ کے قیام کا مقصد یہ تھا تاکہ یہ تمام اقدامات زیادہ موثر ہو سکیں، جب یہ آواز بار بار گونجتی رہے گی تو یہ کسی عملی قدم کو ‘موٹیویٹ’ کر سکے گی۔”

لوگوں کا رسپانس کیسا تھا؟

گو کہ بعض سکولوں کی انتظامیہ کا رسپانس حوصلہ شکن تھا، شہاب کے بقول جنہوں نے یہ کہہ کر پراجیکٹ کے منتظمین کو اُن کے اداروں میں آگاہی سیشنز نہ کرانے دیئے کہ یہ چیز اُن کے ایجنڈا پر نہیں ہے: "اسی طرح عوام تک اِس پیغام کی رسائی میں بھی مشکلات تھیں، اور ایڈمنسٹریشن لیول پر بھی چیلنجز پیش آ رہے تھے لیکن جب ہمت ہو، اور آپ کا یقین پختہ ہو تو آپ ہر طرح کے چیلنجز پر قابو پا سکتے ہیں۔”

تاہم ٹارگٹڈ آڈینس، بالخصوص والدین اور فیملیز کے عمومی رسپانس کو شہاب نے نہایت حوصلہ افزا اور دل خوش کن قرار دیا اور بتایا کہ جو مقابلے ہم نے کرائے تھے اُن کا مقصد بچوں تک پہنچنا اور اُن کی فیملیز کو متحرک کرنا تھا، اور اِن کی رسپانس بہت بہترین تھا: "مقابلوں میں خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں سمیت لاہور اور فیصل آباد سے بھی شرکاء شامل ہوئے لیکن سب سے زیادہ شرکت کوہاٹ اور ایبٹ آباد سے کی گئی۔ اِس کے علاوہ ہمارے ساتھ بہت سے والدین انگیج ہوئے۔ وہ ہمارے کلائمیٹ ڈائیلاگ کانفرنس میں بھی آئے۔ اور اِس کے علاوہ انہوں نے بہت زبردست فیڈبیک بھی دیا۔

یہ ایک پشاور بیسڈ پراجیکٹ تھا لیکن ہم نے اِس کا دائرہ کار خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع کے ساتھ ساتھ اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد جیسے ملک کے بڑے شہروں تک بھی پھیلا دیا۔”

پشاور، خیبر اور مہمند کے 15 سرکاری، پرائیویٹ سکول و کالجز کے ساتھ ساتھ افغان تعلیمی اداروں کو ٹارگٹ کرنے کے بعد شہاب اور اُن کی ٹیم کا ارادہ ہے کہ وہ مستقبل میں اِس پراجیکٹ کو صوبے کے دیگر اضلاع تک بھی پھیلائیں گے اور وہاں اویئرنس سیشنز اور اِس طرح کے ڈائیلاگ کا انعقاد کرائیں گے تاکہ یہ بنیادی آگاہی، اور یہ اہم پیغام ملک کی پوری آبادی تک پہنچا جا سکے۔

شہاب کی نظر میں کلائمیٹ چینج ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے خلاف کسی فردِ واحد، یا کسی ادارے کی کوششیں تب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک حکومت، پرائیویٹ سیکٹر اور سول سوسائٹی سمیت ہر سطح پر مشترکہ اور مربوط کوششیں نہیں کی جاتیں۔ اِس ضمن میں مسلسل مزید کام اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

سی ڈی پی ماہرین کی نظر میں

ٹی این این کے ساتھ اِس حوالے سے گفتگو میں کلائمیٹ چینج اور گلوبل وارمنگ میں پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر، فہیم خان، نے شہاب کی آراء سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے بتایا کہ کلائمیٹ چینج ایک حقیقت ہے اور اِن بدلتے ہوئے ماحولیاتی حالات میں جینا ایک بہت بڑا چیلنج؛ اور نئی نسل کو کلائمیٹ چینج کی وجوہات اور اِس کے اثرات کے ساتھ ساتھ ایڈاپٹیشن آئیڈیاز سے روشناس کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

انوائرنمنٹ جرنلسٹ محمد داؤد خان کے مطابق محولہ بالا پراجیکٹ سٹیٹ لیول پر بھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز (پائیدار ترقیاتی اہداف) 2030 میں ایک اہم نقطہ تعلیم کا بھی ہے: "یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے کہ ہمارے جوان پہلے سے اِس ایریا میں کام کر رہے ہیں۔ یہ درحقیقت ایس ڈی جیز پر کام ہے۔ پاکستان چونکہ یو این کا رکن ملک ہے تو پاکستان کو بھی اِس پر کام کرنا ہو گا لہذا یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ پشاور جیسے شہر میں ایسے نوجوان ہیں جو انفرادی طور پر بھی ایس ڈی جیز پر عمل کر رہے ہیں اور کلائمیٹ چینج کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پھیلا رہے ہیں۔”

اک سوال کے جواب میں محمد داؤد خان نے بتایا کہ خیبر پختونخوا ملک کا واحد صوبہ تھا جس نے 2017 میں کلائمیٹ چینج کے حوالے سے ایک پالیسی وضع کی اور پھر اِس پالیسی کو 2022 میں یو این ایس ڈی جیز کی روشنی میں اپ گریڈ کیا: "کے پی میں تو پالیسی بھی بنی ہے، اور یہ ایک بہت اچھی پالیسی بھی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اِس کے نفاذ میں مسائل ہیں کیونکہ اِس مقصد کے لئے فنڈز درکار ہوتے ہیں جو کے پی حکومت کے پاس نہیں ہیں۔”

تصویر کا دوسرا رخ

اگرچہ شہاب اور ان کی ٹیم کی یہ کاوش، سی ڈی پی، ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے تاہم زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے سی ڈی پی جیسے مزید پراجیکٹس پر ہنگامی بنیادی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اِس رپورٹ کے سلسلے میں جب ٹی این این نے پشاور کے اعلیٰ و تاریخی تعلیمی اداروں سمیت سرکاری اور نجی سکولوں کے ساتھ ساتھ افغان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء، اور اساتذہ سے کلائمیٹ چینج، اس کی وجوہات اور اس کے اثرات سے متعلق اُن کی جانکاری کو جانچنے کی کوشش کی تو اُن میں سے بیشتر نے اِس سے یا تو لاعلمی کا اظہار کیا یا پھر اِس حوالے سے ان کی معلومات مکمل طور پر ناقص تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ تقریباً تمام سٹوڈنٹس نے، اور ماسوائے ایک گورنمنٹ ہائی سکول ٹیچر کے تمام اساتذہ نے بھی، اِس امر کا اعتراف کیا کہ اُن کے ادارے میں اِس حوالے سے کبھی کسی قسم کی معلومات نہیں دی گئیں۔

محمد یٰسین نامی سکول ٹیچر البتہ کلائمیٹ چینج میں "ذاتی دلچسپی” کے باعث اپنے طور پر اپنی کلاس کو وقتاً فوقتاً ایجوکیٹ اور ‘سینسیٹائز’ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یٰسین یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ کلائمیٹ چینج کو اعلیٰ سطح پر ہی نہیں بلکہ ابتدائی و ثانوی لیول پر بھی سلیبس کا حصہ بنانا نگزیر ہے اور اِس ضمن میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔

”ماحولیاتی بحران تعلیمی بحران ہے”

گزشتہ ماہ دبئی میں منعقدہ یو این کلائمیٹ کانفرنس کے موقع پر یو این گلوبل فنڈ برائے تعلیم کی چیف ایگزیکٹیو یاسمین شیرف نے ماحولیاتی بحران کو تعلیمی بحران قرار دیتے ہوئے کہا کہ کلائمیٹ چینج لاکھوں بچوں اور نوعمروں سے سیکھنے کا حق، کھیلنے کا حق، اور خود کو محفوظ اور سیکیور محسوس کرنے کا حق چھین رہا ہے۔

ای سی ڈبلیو کے نئے اعداد و شمار کے مطابق اِس وقت دنیا بھر میں 224 ملین سے زائد بچے کرائسز سے متاثرہ ہیں جنہیں فوری طور پر ایجوکیشن سپورٹ کی ضرورت ہے۔ اِن میں سے 62 ملین وہ بچے ہیں جو 2020 کے بعد سیلاب، طوفان، خشک سالی اور اِس طرح کے دیگر انتہائی موسمی واقعات سے متاثر ہوئے۔ مزیدبرآں، گزشتہ دس سالوں میں سکول کی عمر کے 31 ملین بچے کلائمیٹ چینج سے متاثر ہوئے جن میں سے 13 ملین صرف گزشتہ تین سالوں میں متاثر ہوئے۔ 2022 کے سیلاب میں پاکستان میں 26000 سکول تباہ یا ڈیمیج ہوئے جس سے ایک اندازے کے مطابق دو ملین سے لے کر ساڑھے تین ملین سے زائد بچوں کا سلسلہ تعلیم متاثر ہوا (‘سیو دی چلڈرن’ کے مطابق خیبر پختونخوا میں یہ تعداد سات لاکھ کے قریب تھی)۔ اِن میں چھ لاکھ سے زائد نوعمر لڑکیاں بھی شامل تھیں جن کے سکول ڈراپ آؤٹ، صنفی بنیادوں پر تشدد اور چائلڈ میرج کے رسک میں اضافہ ہوا۔

2050 تک کلائمیٹ امپیکٹس ورلڈ اکانومی کو سات اعشاریہ نو ٹریلین ڈالرز نقصان، اور 216 ملین لوگوں کی اپنے ہی ملکوں میں نقل مکانی کا باعث بن سکتے ہیں؛ ورلڈ بینک کی اِس رپورٹ اور چند دیگر شواہد و حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے یاسمین شیرف نے اِس امر پر زور دیا کہ ہمیں کلائمیٹ چیننج اور ایجوکیشن میں خلل کے درمیان باہمی تعلق کو سمجھنا ہو گا اور سب سے زیادہ غیرمحفوظ بچوں کو کوالٹی ایجوکیشن کی فراہمی یقینی بنا کر، اور کلائمیٹ ایکشن اور کوالٹی ایجوکیشن کو آپس میں جوڑ کر، ہم ایک پوری ایک نسل کو بدلتے ماحول سے موافقت اور ایک بہتر مستقبل کی راہ نکالنے کی مہارتوں سے آراستہ کر سکتے ہیں: "اِس لئے موجودہ اور نئے ڈونرز سے ہماری اپیل ہے کہ وہ اِس مقصد میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں اور بالکل یہیں اور بالکل ابھی، ایکٹ کریں۔ کیا آپ یہ چیلنج قبول کرنے کیلئے تیار ہیں؟”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button