لائف سٹائل

پاکستان میں کئی دن سے چھائی رہنے والی دھند ہے یا سموگ؟

 

خالدہ نیاز

"ڈیوٹی کے لیے جانا اور واپس گھر آنا بہت مشکل ہو گیا ہے کیونکہ 24 گھنٹے مسلسل دھند اور حدِ نگاہ صفر ہوتی ہے، پتہ نہیں پاکستان کے موسم کو کیا ہو گیا ہے؟”
یہ کہنا تھا نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے علی کا جو ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ علی ڈیوٹی کے لیے روزانہ اپنی گاڑی میں سفر کرتے ہیں لیکن پچھلے تین چار دن سے نہ تو وہ ڈیوٹی کے لیے وقت پر پہنچ پاتے ہیں اور نہ ہی گھر کیونکہ دھند کی وجہ سے پشاور سے نوشہرہ کا سفر 45 منٹ مزید طویل ہو گیا ہے۔
یہ حال صرف علی کا نہیں ہے بلکہ ملک کے باقی شہروں میں بھی گزشتہ چار روز سے لاکھوں لوگوں کا یہی حال ہے؛ نہ کوئی وقت پر دفتر پہنچ پاتا ہے اور نہ کوئی کام کی دوسری جگہ۔ دھند کی وجہ سے سردی کی شدت میں بھی شدید اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔

آئندہ چند روز تک کچھ علاقے شدید دھند کی لپیٹ میں رہیں گے
محکمہ موسمیات کے مطابق دھند کا یہ سلسلہ رواں ہفتے برقرار رہے گا اور آئندہ چند روز تک کچھ علاقے شدید دھند کی لپیٹ میں رہیں گے۔ خیبر پختونخوا کے میدانی علاقوں میں شدید دھند اور سموگ چھائی رہے گی۔
اِس حوالے سے پشاور کی رہائشی سلمیٰ جہانگیر نے بتایا کہ جب وہ چھوٹی تھی تب بھی سردیوں کے موسم میں دھند چھائی ہوتی تھی لیکن اب کی بار دھند میں ایک عجیب سی بو بھی ہے: "مجھے لگتا ہے کہ یہ سموگ ہے کیونکہ دھند کی بو نہیں ہوتی تھی۔”
سلمیٰ جہانگیر نے بتایا کہ سموگ نے لوگوں کے لیے کافی مشکلات پیدا کی ہیں؛ اس کی وجہ سے سکول بند پڑے ہیں۔ باقی لوگ بھی دفاتر اور کام کی دیگر جگہوں پر وقت پر نہیں پہنچ پاتے اور بہت سارے لوگوں نے تو جانا بھی بند کر دیا ہے۔
سلمیٰ نے بتایا کہ اِس سموگ کی وجہ سے بیماریاں عام ہو چکی ہیں اور روڈ حادثات میں بھی اضافہ ہوا ہے؛ صبح 7 بجے تو گھر سے نکلا ہی نہیں جاتا کیونکہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگر کسی کی ایمرجنسی بھی ہو تو لوگ گھروں سے نہیں نکل پاتے۔ انہوں نے بتایا کہ گھروں میں خواتین کے لیے کھانا پکانا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ گیس نہیں ہوتی۔

سموگ کی وجوہات کیا ہیں؟
کلائمیٹ چینج ایکسپرٹ اکمل خان نے بتایا کہ اس ہفتے کی موسم کی جو کنڈیشنز ہیں وہ کچھ پارشل کلاؤڈ کنڈیشنز ہیں۔ موجودہ دھند مکمل طور پر دھند نہیں ہے، یہ سموگ اور دھند کا امتزاج ہے۔ پاکستان اور خیبر پختونخوا میں جاری اِس موسم کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس میں چنگچی رکشوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے کیونکہ یہ ماحول دوست نہیں ہیں۔ اس وقت ہر گلی محلے میں چنگچی رکشے نظر آتے ہیں۔ ان سے جو دھواں نکلتا ہے وہ ماحول کے لیے خطرناک ہے۔ ساتھ میں جو نالیاں ہیں ان میں مہینوں تک گندا پانی کھڑا ہوتا ہے، نکاسی کا نظام ٹھیک نہیں ہے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے گاڑیوں کی تعداد میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اِس سے بھی ماحول کو بہت خطرات لاحق ہیں۔
اکمل خان نے بتایا کہ اس سموگ سے انسانی صحت کو بھی کافی خطرات لاحق ہیں۔ اور آج کل یہ بیماریاں جو زیادہ ہو گئی ہیں، اِس کا تعلق بھی کلائمیٹ چینج سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں آٹوموبیل پر کام کرنا چاہئے اور اس حوالے سے قانون نافذ کرنا چاہئے کیونکہ اگر ابھی اس پر کام نہیں کیا گیا تو مستقبل میں اس کے بہت خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں دو ہزار چالیس تک موسم کی پیشنگوئی
اکمل خان کے مطابق انہوں نے خیبر پختونخوا کے 15 اضلاع میں ایک سٹڈی کی تھی جس میں انہوں نے دو ہزار چالیس تک موسم کی پیشنگوئی کی تھی: ”اُس میں ہم نے دیکھا کہ سردیوں میں جو ٹمپریچر بڑھ رہا ہے اِس میں رات کا ٹمپریچر دن کی نسبت زیادہ بڑھ رہا ہے۔ جب آپ کے رات اور دن کے ٹمپریچر میں فرق ہو اور یہ فرق بڑھ بھی رہا ہو، اوپر سے سردیوں کی بارشیں بھی کم ہوتی جا رہی ہوں تو اِس وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں اور موجودہ سموگ بھی اس کی ایک مثال ہے۔”
انہوں نے کہا کہ ہماری جو گرمیوں کی رین فال ہے وہ اپریل تک آ رہی ہے جبکہ سردیوں کی رین فال ختم ہو رہی ہے تو ایسے میں کلائیٹ چینج کا تھریٹ اوپر جا رہا ہے اور (یہی وجہ ہے کہ) پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں 5ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔
اکمل خان کے مطابق اس وقت کلائمیٹ چینج ایڈاپٹیشن پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آٹوموبیل گاڑیوں سے لے کر صفائی اور نکاس آب تمام چیزوں کو دیکھنا ہو گا اور اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ آنے والے وقتوں میں ہم موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کر سکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button