سیاست

ووٹ بینک تقسیم ہونے کی وجہ سے بلوچستان کی اقلیتی برادری سیاست دانوں کے لیے غیر اہم

عزیز الرحمن سباؤن

بلوچستان کے سب سے بڑی غیر مسلم کمیونٹی مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے کوئٹہ کے نواں کلی کے رہائیشی انیل نار بھی ان تین ہزار مسیحیوں میں سے ایک ہے جو پچھلے سات سالوں سے ہر اتوار تین سے چار کلومیٹر دور بروری روڈ عیسی نگری کے چرچ جاکر اپنے مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے انتخابات میں جہاں  عام عوام کی اچھی تعلیم، صحت،صاف پانی،گیس اور بجلی کے مطالبات تھے وہی انکی کمیونیٹی نے اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے چرچ کا مطالبہ رکھا، مگر آج تک انکا یہ مطالبہ نہ صرف یہ کہ پورا کیا گیا ہو بلکہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی طرف سے ان کے ساتھ اس چیز پر بات بھی نہیں کی گئی ہے۔

”پچھلے سال ہم نے نواں کلی سے منتخب نمائندے کے سامنے یہ مطالبہ رکھا مگر وہ بات وہی کی وہی رہ گئی اور تو اور اس دفعہ آنے والے انتخابات میں حصہ لینے والے کم و بیش دس سے زائد امیدوار جو نواں کلی سے انتخابات لڑ رہے ہیں نے بھی ابھی تک ہماری اس مشکل کو حل کرنے کے لئے دعوی تک بھی نہیں کیا ہے”

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جون 2022 کی ووٹر لسٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت مذہبی اقلیتوں کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے جس میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہیں جبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18 لاکھ 41 ہزار 193 ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں اقلیتی رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 51 ہزار 245 ہے جن میں سے ہندو ووٹرز کی تعداد 28 ہزار 551 جبکہ مسیحی ووٹرز 20 ہزار 761 اور دیگر اقلیتی ووٹرز 1 ہزار 933 ہیں۔

بلوچستان میں سب سے زیادہ اقلیتی ووٹوں کی تعداد ضلع کوئٹہ میں 19 ہزار 567 ہے۔ دیگر اضلاع میں جعفر آباد 5115، لسبیلہ 4278، خصدار 2503 اور کیچ 2771 شامل ہیں۔ صوبے کے پانچ اضلاع ایسے ہیں جن میں مذہبی اقلیتوں کے ووٹوں کی تعداد 50 سے بھی کم ہے۔ ان میں موسیٰ خیل 12، واشک 45، سوراب 30، باکھران 24 اور آواران 50 شامل ہیں۔

بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں کل 65 سیٹیں ہے جن میں سے 51 انتخابات کے ذریعے طے کئے جاتے ہیں، 11 سیٹیں خواتین اور جبکہ 3 اقلیتی برادری کے لئے مختص کی گئی ہے جو زیادہ سیٹیں جتنے والی پارٹیاں ہی سلیکٹ کرتی ہیں۔

انیل کا دعوی ہے کہ مخصوص سیٹوں پر اسمبلی کا حصہ بننے والے لوگ ان سے زیادہ اپنی پارٹیوں کے لئے وفادار ہوتے ہیں۔ “اب مخصوص سیٹ پر تو وہی اسمبلی تک پہنچ سکتے ہیں جن کو پاور والی پارٹی موقع دے تو اسی لئے وہ اسمبلی میں زیادہ تر اپنے پارٹی کے تحت ہی فیصلے لیتا ہے اور وہ عام نمائیندوں کی بنسبت ہمیں نہیں بلکہ اپنی پارٹی کو جواب دہ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ہمارے ووٹوں کا محتاج ہوتا ہے تو اسی لئے اسے ہمارے مسائل سے شروع سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا”

بلوچستان کے سب سے بڑے شہر کوئٹہ میں نواں کلی مسیحی اقلیتی برادری کی سب سے بڑی آبادی رہائش پذیر ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق کوئٹہ میں آباد 21 ہزار سے زائد مسیحی برادری کی تیس فیصد آبادی نواں کلی میں رہائش پزیر ہیں۔

انیل غوری کا تعلق بھی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ہے اور وہ پہلی دفعہ پر امید ہیں کہ انہیں پارٹی کی طرف سے نواں کلی کا ٹکٹ دیا جائیگا۔

انیل غوری کے مطابق انتخابات کے ذریعے عوامی نمائندہ منتحب ہوئے بغیر انکی برادری کو درپیش مسائل حل کرنا نا ممکن ہے "پاکستان میں صوبائی یا مرکز میں اکثریتی جماعت مخصوص نشستوں پر اقلیتی ممبران تو منتحب کرلیتے ہیں لیکن وہ اپنے لوگوں کے فلاح بہبود کے بجائے زیادہ ترکام پارٹی کے ایجنڈے کے مطابق ہی کرتے ہیں”۔

یاد رہے کہ پاکستان میں 2002 سے صوبائی اور قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا قانون بنایا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے اقلیتی برادری ووٹ کے ذریعے ہی اپنے نمائیندے منتخب کرتے تھے۔

2018 سے 2023 تک بلوچستان اسمبلی میں اقلیتی سیٹ پر رہنے والے خلیل جارج نے بتایا تھا کہ 2002 میں کی گئی آئینی ترمیم اکاون سے اقلیتی برادری کو کافی فائدہ پہنچا ہے۔ "اقلیتی برادری مختلف علاقوں میں رہائیش پذیر ہونے کے باعث ان کا ووٹ بھی تقسیم ہوا ہے تو اسی لئے وہ کبھی بھی اپنے کسی نمائیندہ کو کامیاب نہیں کراسکتے اسی وجہ سے اس قانون کی رو سے اقلیتی برادری کو نمائیندگی ملنا یقینی ہوگیا ہے”.

بلوچستان اور خاص کر کوئٹہ میں رہنے والی اقلیتی برادری کا شکوہ ہے کہ وہ نہ صرف مکمل طور پر انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنتے بلکہ مردم شماری کے دوران بھی انہیں پورا نہیں گنا جاتا اسی لئے انہیں ووٹر رجسٹریشن کے دوران بھی بہت سے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

کوئٹہ کے مسجد روڈ کے رہائشی مہیش کمار کہتے ہیں کہ ان کے بشمول ان کے خاندان کے آٹھ رجسٹرڈ ووٹ کاسٹ کرنے والے افراد نے نہ پچھلے الیکشن میں ووٹ کاسٹ کیا ہے اور نہ ہیں آئندہ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔

"دوسرے ایشوز کے ساتھ ساتھ ہمارے کچھ مذہبی ایشوز بھی ہوتے ہیں مثال کے طور پر ہماری آبادی کے حساب سے ہمارے مندر بالکل چھوٹے اور نا کافی ہیں اور ہم اتنی تعداد میں ہے بھی نہیں کہ اپنے لئے الگ نمائندے کو جتوا سکے اور نہ ہی ہمارے کم وٹوں سے کسی نمائندے کو فرق پڑنے والا ہے تو  اسی لئے ہمارے ووٹوں کا کوئی مقصد ہی نہیں رہا اور ہم نے اپنے آپس میں ہی طے کیا ہے کہ ووٹ  اس شخص کو کیوں دے جسے ہمارے ضروریات پورے کرنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے”

بلوچستان اسمبلی میں اقلیتی برادری کے سیٹ پر منتخب ہونے والے سابق رکن اسمبلی خلیل جارج کہتے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف اپنی برادری بلکہ سب اقلیتی برادری کے مسائل حل کرنے کی پوری کوشش کی ہے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

مگر مہیش کمار کہتے ہیں کہ اقلیتی سیٹ پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی حقیقی معنوں میں عوامی نمائندہ ہوتا ہی نہیں۔ وہ وہاں سے اٹھ کر نہیں آیا ہوتا جہاں اقلیتوں کے روزگار، تعلیم اور خاص کر مذہب جیسے سنسیٹیوں مسائل کا سامنا ہوتا ہوں اور نہ ہی وہ آئیندہ ہمیں جواب دہ ہوتا ہے اور نہ ووٹ کے لئے ہمارا محتاج تو اسی لئے اسے اور اس کی  پارٹی کے لئے جو اچھا ہوتا ہے وہ وہی کرتا ہے”۔

کوئٹہ کے نواں کلی  پی بی 39 پر آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے ہاشم خان کہتے ہیں کہ انکے علاقے میں رہنے والے غیر مسلم کمیونیٹی کے مسائل شاید اس لئے بھی حل نہیں کرائے گئے کیونکہ ان کا ووٹ پینک تقسیم ہوا ہے۔

“میرے علاقے میں رہنے والے غیر مسلم کمیونیٹی کے مسائل یقینا یہاں کے مسلم کمیونٹی سے زائد اور مختلف ہیں مگر سب سے بڑی وجہ جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ انکا ووٹ بینک کو تقسیم کرنا ہے اگر انکا ووٹ بنک اکٹھا کیا جائے تو نہ صرف امید وار انکی مطالبات کے لئے آواز اٹھائیگا بلکہ انکو اچھی طرح حل کرانے کی بھی کوشش کریگا “

نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔ 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button