خشک سالی کے خطرات
نازیہ
ہوا، پانی اور بارش صرف انسانی زندگی کے لیے ہی نہیں بلکہ کائنات کے وجود وبقا کے لیے بھی خالق کائنات کی پیدا کردہ نعمتوں میں سے عظیم نعمتیں ہیں۔ انسان کی تخلیق سے لے کر کائنات کے تخلیق تک سبھی چیزوں میں پانی اور ہوا کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ اس کرہ ارض پر جتنے بھی جاندار ہے ان سب کی زندگی کی بقا پانی پرہی منحصر ہے۔
زمین جب مردہ ہوجاتی ہے تو آسمان سے بارش آب ِحیات بن کر برستی ہے اور اسی طرح زمین سیراب ہو جاتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے آج پوری دنیا پانی کی قلت، خشک سالی، بارش کی کمی اور بڑھتی ہوئی حرارت سے پریشان ہے۔
اقوام متحدہ رپورٹ
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انتہائی خشک سالی سے متاثر ہے۔ اس وقت پاکستان ان 22 ممالک کے فہرست میں شامل ہے جو گزشتہ برس سے خشک سالی کا سامنا کر رہے ہیں۔
پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ پانی کی کمی لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دے گی اور اس کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہو گی۔ بدقسمتی سے دنیا میں ہونے والی ہر بری چیز کا اثر سب سے پہلے ترقی پذیر ممالک پر ہوتا ہے۔
بارش برسنا
آخر یہ بارش برستی کیسے ہیں؟ سمندر کے اندر گندھک کی ایک چادر پھیلی ہوئی ہے جو پانی کو گھلاتی ہے دوسری طرف سورج سمندر کی اوپری سطح کو گرم کرتا ہے۔ یہاں تک کہ سمندر سے بھانپ اٹھتی اور ہوائیں اسے اپنے دوش پر لیے پھرتی ہے اور ایک ایسے مقام پر لے جاتی ہے کہ اسی بھانپ و بخارات میں کثافت پیداہوتی ہے اور یہی بخارات بارش کی شکل میں رحمت بن کر انسانوں کوسیراب کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اقتصادی سرگرمیوں نے دنیا کے پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے خشک سالی میں اظافہ ہو رہا ہے۔
خشک سالی سے پیدا ہونے والی بیماریاں
اج کل جہاں بھی جاؤ تو خشک سالی کے باعث نزلہ، زکام، کھانسی، الرجی، اور جلد کی بیماریوں سے متاثرہ مریض دیکھنے کو ملینگے۔ پورے ملک میں خشک سردی کا سلسلہ جاری ہے۔ محکمہ موسمیات نے خبر دار کردیا ہے کہ اگلے دو ماہ تک بارشوں کا امکان بہت کم ہے۔ خشک سردی کو اتنا ہلکا نہ لے کیونکہ ایسے موسم میں لاحق ہونیوالی بیماریاں آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتی۔
پانی کا بحران
آئی ایم ایف اور یو این ڈی پی کے مختلف رپورٹس میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040 تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک کہلاۓ گا۔ پورے ملک میں بارشوں کا یہی حال ہے جبکہ زیر زمین پانی مزید نیچے سے نیچے ہوتی جارہی ہے۔ کئی مقامات پر تو 200 فٹ پر بھی پانی دستیاب نہیں ہے مگر پھر بھی استعمال میں کوئی احتیاط نہیں برت رہا ہے۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پانی کی کمی لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دے گی جس کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوگی۔ میٹھے پانی میں کمی کا باعث بننے والی سب سے بڑے عناصر فضائی الودگی اور گلوبل وارمنگ ہے۔۔
صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ مویشیوں اور زراعت کے لیے پانی کی مقدارکم سے کم ہوتی جارہی ہے اور یوں خوراک کی پیداوار کا دائرہ بھی سکڑتا جارہا ہے۔
زرعی ماہرین کے مطابق پاکستان میں خشک سالی کے سبب گزشتہ کچھ برسوں میں زراعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ہماری 90 فیصد زراعت کا دارومدار دریائے سندھ پر ہے لیکن اس وقت دریائے سندھ میں دھول اڑ رہی ہے۔ موجودہ سیزن میں بارشوں کا نہ ہونا بدترین ماحولیاتی تبدیلی ہے جس کا براہ راست اثر زراعت پر پڑرہا ہے۔
مصنوعی بارش
لاہور محکمہ موسمیات کے مطابق دسمبر کے وسط تک قدرتی طور پر بارش کے امکانات بہت کم تھے اس صورتحال کے پیش نظر نگران پنجاب حکومت کی جانب سے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 28 اور 29 نومبر کو مصنوعی بارش کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی تھی۔ ٹیکنیکل کمیٹی کے ممبر اور پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف جیوگرافی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منور صابر نے کہا کہ مصنوعی بارش پہلے سے موجود بادلوں پر نمک چھڑک کر برسائی جا سکتی ہے۔ ایک بار بارش برسانے کیلئے 4 کروڑ روپے خرچ آئے گا۔ ڈاکٹر کی بات سن کر سورت رحمن کی ایت یاد آئی کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔ کیونکہ ایک بارش برسانے کے لیے کروڑوں روپے دینے پڑے تو سوچو اگر عمر بھر کے لئے اللہ بارش برسانا بند کرے تو پھر کیا ہوگا؟
حکومت اور لوگوں کو سمجھنا ہو گا کہ اگر وہ پانی کی کمی کے مسئلے سے بچنا چاہتے ہیں تو قلت آب پر قابو پانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور وہ بھی فوری طور پر۔ پانی کی فراہمی میں روز افزوں ہونے والی کمی سے نمٹنے کے لیے دنیا کے کئی ممالک بڑے پر زور طریقے سے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن وطن عزیز میں اس صورتحال کی سنگینی کو صحیح انداز میں محسوس نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ساتھ میں لوگوں کو بھی پانی ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ پانی زندگی ہے۔