انسانیت کہاں کھو گئی
ایمن زیب
ہمارے معاشرے میں ایک بیماری بہت پائی جاتی ہے جس کا نام غرور ہے جس میں انسان اپنی اوقات بھول کر خود کو دوسروں سے اعلی سمجھنے لگتا ہے اور بدقسمتی سے مسلمان معاشرے میں یہ بیماری بہت زیادہ پھیل گئی ہے۔ جاہلانہ طور طریقے ،شکوک و شبہات اور وہم ازل سے اب تک آرہے ہیں۔ یہاں غلط خیالات اور نظریات ہے جیسے ارے یہ تو عیسائی ہے۔ اس کے ساتھ نہ بیٹھو گناہ ہے۔ یہ تو ہندو ہے اس سے بچ کہ رہو یہ بے دین ہے۔ یہ بغیر کلمہ پڑھے کھانا پکاتے ہیں ان کے ہاتھ کا کھانا نا کھاو یہ گندے لوگ ہیں۔ ان سے دوستی نہ کرو، ان کی خوشی اور غم میں شریک نہ ہو ان سے دور رہو وغیرہ وغیرہ۔
یہاں تک کہ غریب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک کیاجاتا ہے۔ چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے ساتھ برابر بیٹھ کر کھانا کھانے میں شرم محسوس کرتے ہیں ، ان کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ ایسا تو بے مذہب لوگ بھی نہیں کرتے، میں اس لیے ان کو بہتر سمجھتی ہوں کیونکہ ان میں انسانیت ہے لیکن اس کمی ہمارے مسلم معاشرے میں بہت پائی جاتی ہے وہ خود کو دوسروں سے اعلی سمجھتے ہیں۔
میرے سامنے بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں، میں نے دیکھا کہ ہمارے ہاں انسانیت کی بہت کمی ہے حالانکہ ہمارے دین نے ہمیں انسانیت سکھائی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر از حد افسوس ہوا کہ ہمارے بہن بھائی مسلمان ہو کر بھی ایسا کرتے ہیں۔ چند دن پہلے میں نے ایک ورکشاپ میں شرکت کی جس میں عیسائی، خواجہ سرا اور ہندو کمیونٹی نے بھی حصہ لیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ کوئی ان کے ساتھ بیٹھ نہیں رہا تھا اور نہ ہی کھانا کھا رہا تھا وہ بیچارے الگ بیٹھے تھے اور نہ ہی ان کے لیے کھانے کا ٹھیک انتظام تھا کیونکہ ہر چیز میں گوشت ڈالا ہوا تھا جو کہ سب کو پتہ ہے کہ گوشت ہندو لوگ نہیں کھاتے ہیں۔ پھر میں نے ان سے بات چیت کی جس میں انہوں نے بتایا کہ جب وہ بی آر ٹی میں سفر کرتی ہے کیونکہ وہ شادی شدہ ہے اور سندور لگاتی ہے تو وہ لوگوں کے سوالات سے بچنے کی وجہ سے اپنا ماتھا اپنے دوپٹے سے چھپا لیتی ہے اور اپنا نام بتانے سے بھی کتراتی ہے۔
تین سال پہلے میری امی کی دوست جو کہ ہندو ہے اس کے بھائی کی شادی تھی اور ہمیں بھی بلایا گیا تھا۔ جب کھانا لگ گیا تو وہاں کے ویٹرز نے ہمیں پوچھا کہ کیا آپ لوگ بھی کھانا کھائیں گے؟ ہم نے کہا بالکل کھائیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ ارے یہ لوگ تو بہت گندے ہیں ہم خود بھی نہیں کھاتے۔ حالانکہ میرے خیال سے وہ کھانا تو مسلمانوں نے پکایا ہوتا ہے لیکن ان کی سوچ ہی کچھ اس طرح بن گئی ہے۔
کچھ عرصہ قبل میں مری گئی ہوئی تھی۔ وہاں ہم نے دو دن گزارے تھے وہاں جب ہم ہوٹل پہنچ گئے تو رات کا کھانا کھا کر جب میں اور میری سہیلی باہر نکلے تو ہم نے دیکھا کہ ہمارا ڈرائیور جو ہمیں لے کر گیا تھا وہ سخت سردی میں باہر کھڑا تھا ،جبکہ ہمیں اندر گرم کمرے میں بھی ٹھنڈ لگ رہی تھی اور وہ بیچارا باہر کھڑا تھا، اس کو کسی نے کھانے کا نہ پوچھا۔ اگرچہ اس نے خود نہیں بولا شاید وہ بات کرنے سے کترا رہا تھا، لیکن پھر بھی ان کو بلانا چاہیے تھا کہ وہ خود کو کمتر نہ سمجھے۔ وہ ہماری ہی طرح انسان ہے کیا ہوا اگر وہ غریب ہے۔ ہم اسے اندر لے آئے اور ان کو کھانا دینے کا کہا پھر انہوں نے کھانا کھایا۔ ان سے معذرت بھی کی۔ صبح پھر ایسا ہی ہوا اور میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ان کو صرف ایک روٹی اور الگ برتنوں میں کھانا دیا گیا اور نہ ہی گرم کیا گیا بس یوں ہی ڈال کر ان کے سامنے رکھ دیا جس پر مجھے بہت افسوس ہوا۔
اگر ہم ذرا سوچے تو یہ دین کے بالکل خلاف ہے کیونکہ اللہ کے سامنے سب بندے برابر ہیں اور اگر کسی کو برتری حاصل ہے تو صرف تقوی کی بنیاد پر جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔ اس کے باوجود بھی یہ رویہ کیوں؟ میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ امیر لوگ یا جو تھوڑے ماڈرن لوگ ہوتے ہیں وہ نوکروں، موچیوں، درزیوں اور باقی لوگوں کو اپنے ساتھ کھلانا تو دور ساتھ بٹھاتے بھی نہیں ہیں۔ ان کے لیے الگ اور پرانا بچھونا بچھایا ہوتا ہے اور ہمیشہ اپنا بچا ہوا کھانا ان کو دیا جاتا ہے۔ یہاں میرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ انسان نہیں ہے یا یہ کسی اور مٹی سے بنے ہوئے ہیں؟
ہم سب ایک جیسے انسان ہے اور ہمارا خالق بھی ایک ہی ہے۔ یہ تو بعد میں قومیں بنیں جبکہ اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرے اگر اس کی طاقت نہیں رکھتے تو ان سے سلوک تو اچھا کرسکتے ہیں جس پر کوئی خرچ نہیں آتا جس سے وہ احساس کمتری کا شکار نہیں ہونگے اور خود کو ہمارے جیسا انسان ہی سمجھیں گے۔ خدا نخواستہ یہی وقت ہم پہ بھی آسکتا ہے اور اگر کوئی ہمارے ساتھ ایسا کرے تو ہمیں کیسا لگے گا؟ ظاہر ہے بہت برا لگے گا اور ہم دل ہی دل میں اس کو برا بھلا کہیں گے۔
اگر ہم دوسروں کو اپنی جگہ پر رکھے ان کے دکھ درد اور تکالیف کو اپنا ہی سمجھے تو غرور کی بیماری کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے کی حالت کافی حد تک تبدیل ہوسکتی ہے۔