"تم باز نہیں آؤ گی نا, سالگرہ منانے سے؟”
حدیبیہ افتخار
میں: امی میرے ساتھ چلیں نا, میں نے بھائی کی برتھ ڈے کے لئے سامان خریدنا ہے۔
امی: تم باز نہیں آؤ گی نا, سالگرہ منانے سے؟ کہا بھی ہے کہ سالگرہ اس طرح زور و شور سے منانا اچھی بات نہیں گناہ ملتا ہے، پہلے بھی کچھ کم مسئلے نہیں ہے زندگی میں۔
میں: انہیں مسئلوں سے کچھ دیر چھٹکارا پانے کے لئے ہی تو کر رہی ہوں کیا ہو جائیگا اگر کچھ لمحے ہنسی خوشی گزار لیں ہم بھی؟ اکلوتا بھائی ہے اس کا برتھ ڈے نہیں منائیں گے تو کس کی منائیں گے۔ اور یوں یہ بحث پورا دن چلتی رہی۔
آج بھی جب ہم اپنے بڑوں کو سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہیں تو یہ الفاظ انہیں کھٹکتے ہیں اور وہ اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیوقوف لوگ زندگی کا ایک سال کم ہونے پر خوشی مناتے ہیں۔
وقت کہاں کسی کے لئے رکتا ہے اسے تو گرنا ہی ہے تو کیوں نہ گزرے ہوئے سال پر افسوس کرنے کی بجائے اس کے خیر سے گزرنے پر خوش ہو لیا جائے؟
میں نے کئی ایسے بڑے بزرگ دیکھے ہیں جن کے سامنے اگر سالگرہ منایا جائے اور کیک کٹنگ کی تقریب کی جائے تو وہ بھڑک اٹھتے ہیں اور ہمیں برا بھلا کہتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ اگر یہی کیک ان کے سامنے کھانے کے لئے پیش کیا جاۓ تو وہ کم ہی انکار کر پاتے ہیں۔
سالگرہ کیا ہے اور کیا یہ منانا چاہئے یا نہیں یہ جاننے کے لئے میں نے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا اور مختلف نظریات سامنے آئے۔
کسی نے کہا کہ سالگرہ منانے میں کوئی قباہت نہیں حتیٰ کہ اس میں کوئی غیر اسلامی عمل نہ ہو, تو کسی نے سالگرہ منانے کو اسلام میں ناجائز قرار دیا کہ یہ مسلمانوں کے لئے ہے ہی نہیں زندگی کا ایک سال کم ہوجانے پرکوئی خوشی مناتا ہے کیا۔
دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو نہ سالگرہ مناتے ہیں اور نہ ہی اسے یاد رکھتے ہیں ان کے نزدیک سالگرہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب کہ بعض افراد اس معاملے میں اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ اگر انہیں تاریخ بدلتے ساتھ رات بارہ بجے برتھ ڈے وش نہ کیا جائے تو وہ برا مان جاتے ہیں اور ناراض ہوجاتے ہیں۔
مجھے سالگرہ منانا بہت پسند ہے خواہ وہ میری اپنی ہو یا فیملی دوستوں میں سے کسی کی۔ میں اپنی سالگرہ کے دن کا آغاز امی سے اپنی پیدائش کے قصے سن کر کرتی ہوں اور اپنی زندگی میں لائے جانے اور اچھی زندگی دینے پر اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں، ہو سکے تو صدقہ خیرات بھی دیتی ہوں۔ اور دن کا اختتام کیک کٹنگ پر ہی ہوتا ہے۔
اسی طرح اپنے پیاروں کی سالگرہ کا اہتمام کر کے انہیں سرپرائز دینا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میرا بھائی ہم پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ویسے تو بیٹیوں کی پیدائش پر افسوس کیاجاتا ہے اور کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی فوتگی ہوئی ہو, اسکے بر عکس لڑکوں کی پیدائش پر گھروں میں عید کا سماں ہوتا ہے۔
خوش قسمتی سے میرے والدین کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوتا جنہیں بیٹیوں کی پیدائش ناگوار گزری ہو, مگر پھر بھی جہاں میری ماں ایک کے بعد ایک بیٹی کی پیدائش پر صبر کرتی رہی وہاں دل ہی دل میں بیٹے کی خواہش بھی کرتی تھیں۔
اور جب چار بہنوں کے بعد میرے بھائی کا جنم ہوا تو گھر میں خوشیوں کی فضا تھی اور اس دن کے بعد ہر دن کو عید کی طرح منایا جانے لگا۔ یہاں تک کہ میرے دادا ان کی ہر سالگرہ پر نظم لکھتے تھے اور اپنی اس خوش قسمتی پر اللہ کا شکر اشعار کے ذریعے ادا کرتے تھے۔
میں پانچویں اور سب سے چھوٹی بہن ہوں, اپنے بھائی سے چھ سال چھوٹی ہوں لیکن میں اپنے بھائی کی سالگرہ یوں جوش و خروش سے مناتی ہوں جیسے کہ بچپن میں ابو منایا کرتے تھے۔
ماشاءاللہ میرے بھائی کی عمر بتیس سال ہو گئی ہے لیکن ہم ہر سال ان کی سالگرہ جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ اس روز ہم اپنے پیاروں کی اس دنیا میں آنے کی خوشی مناتے ہیں اور ان یادوں کو دہراتے ہیں جو کبھی سالوں پہلے اسی تاریخ پر ہمیں ملی تھیں۔ یہ ایسا دن ہوتا ہے جس میں ہم اپنے پیاروں کو احساس دلاتے ہیں کہ وہ ہماری زندگی میں کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔
آج کل ہر انسان اپنی مشکلات میں گر کر نئے دن کے آغاز پر اپنی مشکلات سے لڑنے کا ایک نیا جذبہ پیدا کرتا ہے، تو کیا حرج ہے کہ اس الجھن بھری زندگی میں ایک دن تھوڑا اہتمام کر کے، اچھے کپڑے پہن کر، اور کیک کاٹ کر اپنے پیاروں کا منہ میٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں محبت بھری نظروں سے دیکھ اور ہنسی خوشی ان کو کہے کہ آپ کو سالگرہ مبارک ہو۔۔۔۔
سالگرہ کے بارے میں یہ میری رائے ہے, ہوسکتا ہے کچھ لوگ مجھ سے اختلاف کریں اور یہ ان کا حق ہے۔
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائیٹر اور بلاگر ہے۔