ابھی کل ہی تو باپ مرا ہے اور آج بازار جا رہی ہو
رعناز
صاف یا نئے کپڑے نہ پہنو، آنکھوں میں سرمہ نہ لگاؤ، زیادہ کھل کے مت ہنسو، بازار مت جاؤ۔ اپنی نوکری کے لیے گھر سے باہر مت نکلو۔ عید کے لیے نئے کپڑے نہ بناؤ۔ مہندی نہ لگایا کرو ۔یہ ہے وہ سارے جملے جو کہ ان لوگوں کو سننے کو ملتے ہیں جن کے گھر فوتگی ہوئی ہو جن کے بھائی ،باپ ،شوہر یا کسی اور قریبی رشتہ دار کی فوتگی ہوئی ہو۔
کچھ دن پہلے میری ایک دوست کے والد فوت ہوئے تھے۔ ایک ہفتہ چھٹی کرنے کے بعد وہ واپس اپنی ڈیوٹی کے لیے آنا شروع ہو گئی تھی۔ وہ ہر وقت بہت ہی اداس نظر آیا کرتی تھی۔ وہ اپنے والد کی وفات پر بہت زیادہ خفا تھی۔ بہت زیادہ تسلیوں اور کوششوں سے میری دوست آہستہ آہستہ نارمل روٹین کی طرف آنا شروع ہو گئی ہے۔ ایک دن ہم دونوں بیٹھی ہوئی تھی اور معمول کی چیزیں ڈسکس کر رہی تھی۔ اچانک میری دوست نے کہا کہ سردی بہت بڑھ گئی ہے۔ سوچ رہی ہوں کہ اپنے لیے نیا سویٹر لے لوں لیکن معاشرے کے لوگوں کی باتوں سے ڈر لگ رہا ہے۔ میں نے پوچھا کون سی باتیں ؟کہنے لگی کہ کل میں نے امی کو بتایا کہ میں نے اپنے لیے سویٹر لینا ہے۔ تو ہمارے گھر میں بیٹھی ہمسائی نے کہا کہ ابھی کل ہی تو تمہارا باپ مرا ہے اور آج تم بازار جا رہی ہو۔ اتنی جلدی تم لوگ اپنے باپ اپنے سہارے کو بھول گئے ہو۔
افسوس نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کی سوچ۔ اگر اسلام میں فوتگی پر صرف تین دن کا سوگ ہے تو پھر ہمارے معاشرے کی یہ گندی سوچ آخر کیوں؟ کیا اسلام میں ایسا کچھ ہے کہ جس گھر میں فوتگی ہو جائے وہ لوگ پھر گھر سے باہر نہیں آجا سکتے؟ اس گھر کے لوگ اپنی نارمل زندگی نہیں گزار سکتے؟ اس گھر کے لوگ صاف یا نئے کپڑے نہیں پہن سکتے؟ آنکھوں میں سرمہ اور ہاتھوں پر مہندی نہیں لگا سکتے؟ نہیں یہ غلط چیز قطعا ہمارے دین اور مذہب کا حصہ نہیں ہے۔
یہ صرف اور صرف ہمارے معاشرے کی زبردستی مسلط کردہ رسم و رواج ہے۔ باقی کچھ بھی نہیں۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر ایک چیز اسلام میں جائز ہے تو یہ معاشرہ کون ہوتا ہے اسے ناجائز ٹھہرانے والا ؟ اگر اسلام میں سوگ صرف تین دن کا ہے تو یہ معاشرہ اسے عمر بھرکا کیوں بنا رہی ہے؟ ہمارے اسلام میں صرف تین دن کا سوگ ہے۔ یہ دنیا فانی ہے۔ ہر ایک انسان نے جانا ہے۔ کسی نے پہلے تو کسی نے بعد میں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ جانے والے کے غم میں زندہ لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی جائے۔ اگر اسلام میں تین دن کا سوگ ہے تو معاشرے کو بھی یہ تین دن سے بڑھانا نہیں چاہیے۔ ہاں ادھر صرف میں ایک چیز کو واضح کرنا چاہتی ہوں کہ صرف ایک بیوہ کے لیے سوگ چار مہینے اور دس دن کا ہوتا ہے لیکن باقی گھر والوں کے لیے وہ صرف تین دن کا سوگ ہوتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔
میں نے ایک اور چیز بھی نوٹ کی ہے کہ تین دن سوگ کے بعد بھی آئے روز لوگ فوتگی والے گھر جاتے رہتے ہیں۔ ان کا کام صرف اور صرف گھر والوں کا غم دوبارہ سے تازہ کرنا ہوتا ہے اور تو اور عید کے دن بھی صبح صبح ان کے گھر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ فوت ہونے والے شخص کی پہلی عید ہے۔ ہم لوگ دعا کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ایک سال بعد غم کو دوبارہ سے تازہ کرنا یہ تو قطعا ہمارے اسلام کا حصہ نہیں ہے اور وہ بھی عید جیسے مبارک دن پر۔
غرض ہمیں یہ ساری چیزیں ختم کر دینی چاہیے۔ اگر فوت ہونے والے شخص کا خاندان دوبارہ سے نارمل حالات کی طرف آرہی ہے تو ہمیں ان کو سراہنا چاہیے۔ انہیں نارمل حالات کی طرف لے کے آنے میں ان کی مدد کرنی چاہیے ناکہ انکو دوبارہ غم کی طرف دھکیل دینا چاہئے۔
رعنا زایک پرائیویٹ کالج کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔