آو ماؤں کو نوکری دیں
سندس بہروز
پچھلے دنوں سفر کے دوران میری ملاقات ایک خاتون سے ہوئی۔ چونکہ سفر لمبا تھا اس لیے سوچا کیوں نہ ان سے دوستی کر لوں بوریت کم ہوگی۔ وہ 25، 26 سال کی ایک خاتون تھی جن کے ہاتھ میں ایک ننھی سی پیاری سی بچی تھی۔ میں ان کی بیٹی کے ساتھ کھیلتے کھیلتے ان سے چھوٹے موٹے سوال کرنے لگی اور وہ میرے بارے میں جاننے لگی۔ اس طرح ہماری دوستی ہو گئی اور سفر آسانی سے ختم ہوا مگر میں بس سے بوجھل دل کے ساتھ اتری۔ ان کی آواز میں درد نے مجھے ان کی کہانی لکھنے پر مجبور کیا۔
ان کی شادی 24 سال کی عمر میں ہوئی۔ انہوں نے اپنا ایم فل شادی کے بعد سسرال کی ذمہ داریوں کے ساتھ مکمل کیا اور جلد ہی اللہ نے انہیں اولاد کی نعمت سے بھی نوازا۔ اب وہ نوکری کرکے خود مختار ہونا چاہتی تھی۔ اپنا کریئر بنانا چاہتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے بہت مشکل سے اپنے سسرال اور شوہر کو اس بات پر امادہ کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر یہ نوکری کرے گی تو گھر کون سنبھالے گا؟ ان کے مطابق انہوں نے اپنے سسرال والوں سے وعدہ کیا کہ وہ گھر کی ذمہ داری سنبھالنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرے گی۔ مشکل سے اجازت ملنے کے بعد جب وہ اپنی سی وی لے کر گھر سے نکلی تو وہ بہت خوش تھی۔ ان کے والد کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی خود مختار بنے اور ان کو لگ رہا تھا کہ بس وہ ایک قدم دور ہے۔
سی وی کے بعد انٹرویو کا مرحلہ آیا۔ ان کو یقین تھا کہ ان کو نوکری مل جائے گی کیونکہ وہ پراعتماد تھی اور ان کی تعلیمی قابلیت ان کی سی وی سے جھلک رہی تھی مگر جب انٹرویو کے بعد ان کو بتایا گیا کہ وہ یہاں نوکری نہیں کر سکتی تو وہ حیران ہوئی اور اس ادارے کے سربراہ سے ملے بغیر رہ نہ سکی۔ سربراہ نے ان کو بتایا کہ چونکہ وہ ایک بچی کی ماں ہے تو ان کو نوکری نہیں دے سکتے۔ کیونکہ اکثر بچوں کی مائیں دفتر کو پوری توجہ نہیں دے پاتی۔ یہی جواب ان کو دو تین اور جگہوں سے ملا کہ وہ بچی کے ساتھ یہاں نوکری نہیں کر سکتی۔
یہ بتاتے ہوئے ان کی آواز بھر آئی کہ اولاد نعمت ہوتی ہے مگر ان لوگوں نے میرے لیے اس کو زحمت بنا دیا ہے۔ چونکہ گھر میں کوئی بچی کو سنبھالنے والا نہیں اس لیے وہ اس کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتی۔ انہوں نے بتایا کہ اب مجھے اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے اور جب میرے شوہر میری بیٹی کو کہتے ہیں کہ وہ ان کو اعلی تعلیم دلائیں گے اور وہ ایک خود مختار اور بہادر لڑکی بنے گی تو مجھے ہنسی آتی ہے کیونکہ مجھے اس کے مستقبل کا پتہ ہے۔ یہی بات مجھے میرے والد کہا کرتے تھے۔
ہم 21 ویں صدی کے لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے مرد اور عورت دونوں کو کام کرنا ہوگا اور ظاہر سی بات ہے خواتین کے ساتھ بچے بھی ہوں گے۔ تو کیوں نہ ہم ہر دفتر میں ایک چھوٹی سی نرسری بنا لیں جہاں مائیں اپنے بچوں کا خیال بھی رکھ سکیں اور دفاتری معاملات بھی دیکھ سکیں۔ اس طرح ہمارا ملک اپنی آدھی آبادی کے ہنر اور قابلیت سے محروم نہیں ہوگا۔
کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ دفاتر میں نرسری بنا کر ماؤں کے لیے بچوں کو سنبھالنا اور دفاتر میں کام کرنا آسان بنانا چاہیے؟
سندس بہروز انگریزی میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور اور سماجی مسائل پر بلاگرز بھی لکھتی ہے۔