گھریلو ملازمین بچے ہماری توجہ کے طلبگار
نازیہ
بھوک دنیا کا سب سے بھیانک سچ، تلخ حقیقت اور سب سے بڑی کمزوری ہے۔ غربت کے ستائے بچے کیسے پڑھائی، کھیل کود اور اپنی چھوٹی موٹی خواہشات پوری کریں گے ان کے لیے تو دو وقت کی روٹی ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ پاکستان میں آئے روز مہنگائی کی وجہ سے گھر کا خرچ فرد واحد پر بوجھ بن چکا ہے جس کے باعث کم عمر بچوں کو بھی گھر کا خرچ چلانے کیلئے کام کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں گھریلو ملازمین بچوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، اس کو اگر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کہا جائے تو بالکل صحیح ہوگا۔ ان کے کھانے پینے کے برتن الگ رکھنا، ان کو ہمیشہ پردے کے پیچھے رکھنا اور تو اور ان بچوں کو اکثر گھر کا جھوٹا کھانا کھلایا جاتا ہے۔ ارے ظالموں ان بچوں کی مثال تو ان پھولوں کی طرح ہے جس کی مہک سے ہمارے اردگرد خوشبو پیدا ہوتی ہے۔ یہ پھول اتنے نازک ہوتے ہیں کہ ذرا سی تکلیف ان پر آتی ہے تو مر جا جاتے ہیں۔
اس کے ہاتھ میں ایک بڑا شاپر تھا جس کو سنبھالنا اس کے بس کی بات نہیں تھی
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ میں بازار گئی تھی تو وہاں پر ایک چھوٹی بچی تقریبا 10 سال کی تھی پر نظر پڑی۔ اس کے ہاتھ میں ایک بہت بڑا شاپر تھا جس کو سنبھالنا اس کے بس کی بات نہیں تھی جیسے شاپر زمین پر گرتا تو وہ اس کو اٹھاتی تو اس کے ساتھ جو مالکن تھی تو وہ اس کو ڈانٹ رہی تھی مسلسل کہ اپ اس کو نہیں پکڑ سکتی حالانکہ اس مالکن کے کے ساتھ چھوٹی بیٹی بھی تھی جس کے ہاتھ میں گڑیا تھی۔ میں نے اس خاتون کو کہا کہ اپ یہ شاپر خود پکڑے اتنا بھاری تو ہے تو اس نے جھوٹ بول کر کہا کہ میں تو کہتی ہوں کہ نہ پکڑے یہ تو اس نے اپنی مرضی سے پکڑا ہوا ہے۔
چار سے پانچ ہزار روپے ماہانہ کے عوض مالکان ان بچوں سے صبح سے شام تک کام کرواتے ہیں اور ذرا ذرا سی غلطی پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ بعض ظالم لوگ تو اتنا برا تشدد کرتے ہیں کہ ان کی جان ہی لے لیتے ہیں۔ ان ننھے ملازمین کو صرف کھانے کیلئے دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی یا بچا کچھا کھانا ہی نصیب ہوتا ہے۔ بات بات پر مار پیٹ، گالم گلوچ سنتے ہیں۔ برسوں انہیں ماں باپ سے ملنے نہیں دیا جاتا، اگر وہ آئیں بھی تو زیادہ دیر تک ملنے نہیں دیا جاتا ہے اور یوں یہ ملازم بچے انسانی غلامی کی بدترین مثال بن جاتے ہیں۔
گھریلو ملازمہ رضوانہ تشدد کیس
اگر آپ نے ظلم، بربریت، نا انصافی، لا قانونیت، سنگدلی اور بے حسی کا اندازہ لگانا ہوتو آپ گھریلو ملازمہ رضوانہ تشدد کیس کا جائزہ لے تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ یہاں پر اپ کو ایک حالیہ واقعے جو رضوانہ تشدد کیس کے نام سے مشہور ہوا ہے کے بارے میں بتاتی ہوں۔ یہ واقعہ سرگودھا میں ایک قانون دان کے گھر میں پیش ایا۔ اس قانون دان کی بیوی نے تو قانون کی دھجیاں اڑھادی۔
14سالہ بچی رضوانہ لاہور کے جنرل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق رضوانہ کے پھیپھڑوں میں بلڈ کلاٹ ہوا تھا جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی تھی یہاں تک کہ اس کو مصنوعی تنفس پر منتقل کرنا پڑا۔ رضوانہ کے سر، کمر، بازو، چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر زخموں کی وجہ سے انفیکشن ہوا تھا جو پورے جسم میں پھیلا اور پھر پھیپھڑوں تک بھی جا پہنچا۔ 24 جولائی کو اسلام آباد کے بس اڈے پر جج کی ظالم اہلیہ نے جب رضوانہ کو اس کی ماں کے حوالے کیا تو اس کے سر میں گڑھے پڑے ہوئے تھے اور اس کے زخموں سے بد بو آ رہی تھی اور ان میں کیڑے چل رہے تھے۔ ہاتھوں کی انگلیوں سمیت جسم کی ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ رضوانہ نے اپنی ماں شمیم بی بی کو بتایا کہ جج کی اہلیہ نے تو مجھے پہلے دن سے ہی مارنا شروع کر دیا تھا، سر دیوار سے مارا جاتا تھا اور ہاتھوں کی انگلیاں مروڑ کر ہڈیاں توڑی جاتی تھی اورلمبے ناخنوں سے میری آنکھیں نوچتی تھی۔ گھر کے اندر سونے کی اجازت نہیں تھی اور باہر لان میں سوتے وقت زخموں سے چُور جسم کئی دفعہ بارش میں بھی بھیگ جاتا تھا۔ شکر ہے پانچ مہینے کے مسلسل علاج کے بعد رضوانہ کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔
گھر کا پورا کام ان بچوں سے کروایا جاتا ہے
پاکستان میں گھر کا پورا کام ان بچوں سے کروایا جاتا ہے اب چاہے وہ صفائی ستھرائی ہو، برتن ہو یا کپڑے دھونا، استری کرنا ہو یا پھر کھانا پکانا۔ گھروں پر ملازم بچوں کی عمریں عموما اتنی ہی ہوتی ہیں جتنی اس گھر میں رہنے والے بچوں کی لیکن پھر بھی ان سے وہ کام کروائے جاتے ہیں جو اپنے بچوں کے لیے مشکل سمجھتے ہیں۔
دل تو خون کے انسو تب روتا ہے کہ چائلڈ لیبر سے مستفید ہونے والوں میں اعلی تعلیم یافتہ لوگ جیسا کہ ڈاکٹر، وکیل، جج اور سیاست دان ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں کسی بھی حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ اس صورتحال کے اصل ذمہ دار ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران ہی ہیں جن کی ناقص پالیسیوں کے سبب چائلڈ لیبر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
چائلڈ لیبر کے ناسور کو ختم کرنے کیلئے اشتہارات، سیمینارز، چند چھاپے یا ریلیاں تب تک ہر گز کارگر ثابت نہیں ہو نگی جب تک حکومت مہنگائی اور غربت کی شرح میں کمی کیلئے عملی اقدامات نہیں کرتی۔ اگر غریب کے معاشی حالات بہتر ہونگے تب ہی وہ اپنے بچوں کو چند پیسوں کی خاطر کسی کے گھر نہیں بھیجیں گے بلکہ ان کے روشن مستقبل کیلئے ان کو سکول بھیجیں گے اور اسی طرح چائلڈ لیبر جیسے ناسور کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔