ہم حکومت کو ٹیکس کیوں دے رہے ہیں؟
تحریر :رعناز
یقینا میری طرح آپ بھی لفظ ٹیکس سے خوب واقف ہوں گے۔ اگر ہم کوئی صابن خریدنا چاہے تو اس پر ٹیکس۔ کوئی شیمپو خریدنا چاہے تو اس پر بھی ٹیکس۔ اگر تنخواہ زیادہ ہے تو اس پر بھی ٹیکس۔ اگر کسی اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانا چاہے تو اس پر بھی ٹیکس۔ کوئی کارخانہ یا کوئی کاروبار اگر ہم کر رہے ہیں تو اس کا بھی ہمیں سالانہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔
تو کیا آپ کو پتہ ہے کہ آخر ہم یہ ٹیکس کیوں ادا کر رہے ہیں ؟آیا یہ ہمارے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟ اگر ہم یہ ٹیکس دے رہے ہیں تو کیا ہمیں پتہ ہے کہ آخر یہ کہاں اور کیسے استعمال ہو رہا ہے؟ رکیے ادھر، سب سے اہم سوال تو میں بھول ہی گئی کہ آخر یہ ٹیکس ہے کیا چیز؟
پہلے ہم اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ٹیکس کیا ہے؟ ٹیکس وہ مالی فنڈ ہوتا ہے جو حکومت یا ریاست کے امور چلانے اور عوام کو زندگی کی سہولیات فراہم کرنے پر آنے والے اخراجات کے لیے عوام سے لیا جاتا ہے۔
کیا ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ ٹیکس ہمارے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے ؟ کسی بھی ملک کے لیے ٹیکس بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہ جو ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی کام چل رہے ہوتے ہیں یہ انہیں ٹیکس کے پیسوں سے چلتے ہیں۔ علاج معالجے کے لیے جو بڑی بڑی ہسپتالیں بنتی ہیں یہ اسی ٹیکس کی رقم سے بنتی ہے۔ صاف پانی کی فراہمی اسی ٹیکس کی بدولت ممکن ہے۔ اگر ملک میں موٹرویز کی جال بچھے گی تو فائدہ ہم عوام کو ہی ہوگا۔ ایک گھنٹے کا فاصلہ ہم آدھے یا شاید اس سے بھی کم وقت میں طے کر سکتے ہیں۔ ہر گھر تک بجلی اور گیس کی رسائی ایک مضبوط نظام کے ذریعے سے ہی ممکن ہوگا لہذا ان تمام چیزوں کے لیے بجٹ کی ضرورت ہے اور بجٹ بنتا ہی اسی ٹیکس کے پیسوں سے ہے۔
لہذا ہمیں اس چیز کو سمجھنا ہوگا کہ اگر ہم ٹیکس ادا کریں گے تو ہمارے ملک میں ترقیاتی کام ہوں گے۔ ملک میں صنعتیں اور کارخانے بنیں گے جس سے کافی حد تک بے روزگاری بھی کم ہوگی۔ ہمیں ٹیکس کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے کہ ہمیں ٹیکس کیوں دینا چاہیے اور یہ کہاں پر استعمال ہوگا؟
یہ تو ہو گئی ٹیکس کی اہمیت پر بات اب چلتے ہیں ان وجوہات کی طرف کہ عوام ٹیکس کیوں ادا نہیں کرتے ؟ کیوں وہ ٹیکس نہیں دینا چاہتے؟ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ کیا کبھی حکومت نے یہ بات سوچی ہے کہ عوام سالانہ اربوں روپے خیرات میں دیتے ہیں تو پھر وہ ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ اس کی ایک بڑی وجہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان اعتماد کی کمی ہے۔ عوام حکمرانوں پر بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ حکمران ٹیکس کے پیسوں سے عالی شان بنگلے بناتے ہیں، جو کہ نوکر چاکروں سے بھری ہوتی ہے۔ اپنے لیے بڑی بڑی گاڑیاں خریدتے ہیں جبکہ عوام کے لیے صاف پانی کی فراہمی ان کے لیے مسئلہ کشمیر بن جاتا ہے۔ اگر عوام سرکاری ہسپتالوں میں جاتے ہیں تو انہیں مفت علاج کی جگہ صرف دھکے کھانے کو ملتے ہیں تو پھر وہ ٹیکس کیوں ادا کرے؟
اسی طرح ٹیکس ادا نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ مہنگائی بھی ہے۔ ہمارے ملک کی مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے تو اب اپ مجھے بتائیں ان حالات میں کوئی ٹیکس دینے کا کیسے سوچ سکتا ہے ؟ایک اور اہم بات کہ کیا ٹیکس کی سولی پر صرف غریب عوام ہی چڑھیں گے سرمایہ دار اس میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے؟
ہمیں اس بات کو اہمیت دینی ہوگی۔ اس طرف سوچنا پڑے گا کہ اگر تاجر ٹیکس دینا شروع کرے تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
ہمیں اس بات سے انکار نہیں کہ دنیا بھر میں جتنے ممالک نے بھی ترقی کی ہے اس میں سب سے بنیادی وجہ ٹیکس کا منظم نظام ہے لیکن یہاں انصاف کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام سے ٹیکس لے کر عوام پر ہی خرچ کر دینا چاہیے۔ انہیں تعلیم ،صحت اور آمد ورفت کی بہتر سہولتیں فراہم کرنی چاہیے تاکہ ملک دن دگنی رات چگنی ترقی کرے۔
رعنازکپس کالج مردان کی ایگزیم کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔