سوات: چھ دنوں سے لاپتہ دونوں بھائی گھر لوٹ آئے
رفیع اللہ خان
سوات میں چھ دنوں سے حبس بجا میں رکھنے والے دونوں بھائیوں کو پولیس نے چھوڑ دیا۔ دو روز قبل ٹی این این نے دونوں بھائیوں کی چھ دنوں سے لاپتہ ہونے کی خبر نشر کی تھی جس کے بعد دونوں بھائی 22 سالہ عرفان اور 14 سالہ یٰسین پولیس کی غیر قانونی حراست سے آزاد ہو کر گھر لوٹ آئے۔
اس حوالے سے یٰسین نے ٹی این این کو بتایا کہ بنڑ پولیس نے انہیں چوری کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جس ہینڈی کرافٹس کی دکان میں ملازم تھا اسی کے مالک کے الزام پر پولیس نے انہیں غیر قانونی طور پر حبس بجا میں رکھا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک دو دن تو انہیں تھانے میں رکھا گیا لیکن پھر انہیں ایک ہوٹل کے کمرے میں بند کرکے تشدد کا نشانہ بنایا، بجلی کے کرنٹ لگائے اور رات کے وقت دریائے سوات میں لے جا کر ڈھبکیاں لگائی۔
آنکھوں میں نمی اور چہرے پر خوف طاری بچے نے بتایا کہ ایک دن جب ان کو دریائے سوات سے واپس لایا گیا تو گیلے کپڑوں کے ساتھ انہیں پوری رات کھڑا کر دیا گیا جس سے ان کی حالت غیر ہو گئی اور ان کو الٹیاں آنی شروع ہو گئی تب پولیس نے بیھٹنے کی اجازت دی۔
انہوں نے مزید انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے ان سے زبردستی ویڈیوز بنائی جس میں ان سے اعتراف کرایا گیا کہ ہاں چوری اس نے کی ہے۔
یٰسین کا بتانا تھا کہ جب پولیس ہمیں تھانے سے قریب واقع ہوٹل کے کمرے میں لے جاتے تھے تو تھانے کے چھت کے راستے منتقل کرتے تھے کیونکہ وہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرے نہیں تھے۔
انہوں نے بتایا کہ چھ دنوں سے ہمارے خلاف نا تو ایف آئی آر درج تھی اور نا ہی ہمیں حوالات میں رکھا گیا لیکن پھر جب میڈیا پر خبر چلی اور ہمیں آزاد کیا گیا تو ہمیں بتایا گیا کہ کل آپکو عدالت میں پیش کیا جائے گا 107 ضمانت کرینگے۔
یٰسین کے بڑے بھائی عرفان نے ٹی این این کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اگر ٹی این این ہماری آواز نا اٹھاتا تو ہم ابھی تک ان کے ساتھ غیر قانونی حراست میں ہوتے کیونکہ پولیس تو انکاری تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لاہور میں محنت مزدوری کرتا ہے لیکن چھوٹے بھائی کی گرفتاری کا سن کر اسی رات پہنچا اور سیدھا تھانے گیا جہاں انکو بھی حراست میں لیا گیا۔چھ دنوں کی حراست میں پولیس نے تشدد کے علاوہ گالیاں بھی دی ہمارے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ ہم غریب لوگ ہے دو وقت کی روٹی کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ ہم کہاں پوچھ سکتے ہیں، ماں باپ نے آواز اٹھائی آپ لوگ سہارا بنے تب جا کہ ہم آزاد ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے جس دن گھر پر چھاپہ مارا تھا اسی دوران وہ ایک سونے کی انگوٹھی، 22 ہزار روپے نقد اور ایک موبائل ساتھ لے گئے تھے۔ آنگوٹھی واپس کر دی ہے ، 16 ہزار روپے دئے ہیں باقی چھ ہزار روپے اور موبائل فون انوسٹی گیشن آفیسر کے پاس ہے ابھی تک نہیں دیئے۔
عرفان نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ جس رات ہمیں آزاد کیا گیا اور ہم گھر چلے گئے تو پولیس پرائیویٹ گاڑی میں آکر ہم کو دھمکیاں دیتے رہے کہ پہلے میڈیا پر بیان دیا تھا اب یہ غلطی نا کرنا۔ انہوں نے بتایا کہ ایس ایچ او جہان عالم نے ان سے زبردستی یہ ویڈیو بیان ریکارڈ کیا ہے کہ ان کی والدہ نے جو بیان دیا تھا وہ غلط تھا ہم پولیس کے پاس نہیں تھے بلکہ کام کی غرض سے کئی چلے گئے تھے اب آئے ہیں۔ عرفان نے بتایا کہ انہوں نے ڈر اور خوف کی وجہ سے بیان دیا ایسا نہ ہو کہ پولیس ان کے چھوٹے بھائی کو دوبارہ گرفتار کرلیں۔
انہوں ڈی پی او سوات، ڈی آئی جی ملاکنڈ ریجن اور آئی جی خیبر پختونخوا سے اپیل کی ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے انہیں تحفظ فراہم کریں۔
اس حوالے سے ٹی این این نے ایس ایچ او جہان عالم سے موقف لینے کے لئے رابطہ کیا لیکن انہوں نے موقف دینے سے انکار کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کچھ پتہ نہیں ہے کیونکہ ان کا تبادلہ اسی دن تھانہ غالیگے میں ہوا ہے۔
یاد رہے کہ نزدیک دنوں میں سوات کے مختلف علاقوں میں چوری اور ڈکیتی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے سیدو شریف جیسے پوش اور مینگورہ جیسے مصروف ترین بازاروں میں واقعات رونما ہونا پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
زرائع کے مطابق سیدو شریف میں کراچی جیسی سٹریٹ کرائم شروع ہو چکی ہے موٹر سائیکل سواروں نے اب تک موبائل پر بات کرنے والوں سے موبائل فونز اور پیدل چلنے والی خواتین سے پرس تک چھینے ہیں۔ اس کے علاوہ مینگورہ میں خواجہ سراوں سے تقریبا 22 لاکھ روپے، مینگورہ میں ہینڈی کرافٹس کی دکان سے دو کروڑ سے زائد روپے اور اسی طرح خوازخیلہ میں بھی چوروں نے خوب ہاتھ صاف کئے ہیں۔