خیبر پختونخوا میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے 25 فیصد کٹوتی کی سفارشات تیار
محمد فہیم
مالی بحران کی شکار خیبر پختونخوا حکومت نے رواں مالی سال بڑھائی جانے والی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر اب کٹ لگانے کی تجویز پیش کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر 25 فیصد کٹوتی کی سفارش کی گئی ہے جس کی منظوری وزیر اعلیٰ اور بعد ازاں نگران کابینہ سے لی جائیگی۔ خیبر پختونخوا حکومت نے مالی بحران کی وجہ سے صوبے کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے مالیاتی ایمرجنسی لگانے اور سرکاری ملازمین کے تنخواہوں سے 25 فیصد کٹوتی کرنے کے حوالے سے سفارشات تیار کرلی ہے جس کو منظوری کے لئے نگران وزیر اعلیٰ کو بھیج دیا گیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے اب تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ محکمہ خزانہ ذرائع کے مطابق ایک اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا جس میں خیبر پختونخوا حکومت کو درپیش شدید مالی بحران کا جائزہ لیا گیا اور اس کو کنٹرول کرنے کے لئے مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق صوبے کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے مذکورہ اجلاس میں سفارشات مرتب کی گئی جس کے مطابق صوبے کو درپیش مالی بحران کو کنٹرول کرنے کے لئے تین آپشنز استعمال کئے جائینگے۔
پہلے آپشن کے مطابق رواں مالی سال کے دوران بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دیا گیا 35 فیصد اضافہ واپس لیا جائے گا جس سے ماہانہ 9ارب روپے کی بچت ہوگی۔ فنانس ڈیپارٹمنٹ دوسرے آپشن میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے 25 فیصد کٹوتی کا ارادہ رکھتی ہے جس سے ماہانہ 8 ارب روپے کی بچت ہوسکتی ہے جبکہ تیسرے آپشن میں صوبائی حکومت سرکاری ملازمین کو دیئے جانے والی ایگزیکٹیو الاﺅنس ،ہیلتھ پروفیشنل الاﺅنس اور دیگر الاﺅنسز کو ختم کرنے پر غور کررہی ہے جس سے صوبائی حکومت ایک اندازے کے مطابق ماہانہ 2 ارب روپے سے زائد کی بچت ہوگی۔
سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ ایک سوچے سمجھے فارمولے کے تحت صوبے کو مالی بحران کی جانب دھکیل دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے پاس فنڈز تو موجود ہیں لیکن وہ صوبے کو نہیں دے رہی جبکہ صوبے کی دو اہم شخصیات نگران وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری صوبے کا کیس بھی صحیح طریقے سے نہیں لڑرہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ صوبائی حکومت تنخواہوں کی ادائیگی سے بھی محروم ہے۔ صوبے کا انتظام جس کے پاس ہے انہیں صوبے کی حالت کی پرواہ بھی نہیں ہے چیف سیکرٹری صوبے سے مکمل طور پر لاعلم ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت نے مالی بحران کے باعث درجہ چہارم ملازمین یومیہ اجرت پر بھرتی کرنے کی تجویز پر غور شروع کردیا ہے۔ صوبہ بھر میں درجہ چہارم ملازمین مستقل بنیادوں کی بجائے یومیہ اجرت پر بھرتی کرنے کے طریقہ کار اور ضرورت کے حوالے سے کام شروع کردیا ہے جس کے بعد اس بارے میں فیصلہ کیا جائیگا۔
دوسری جانب درجہ چہارم ملازمین نے اس مجوزہ اقدام کی سختی سے مخالفت کرنے کی تنبیہ کردی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ مالی بحران پر قابو پانے کیلئے افسران کو مستقل کی بجائے یومیہ اجرت پر بھرتی کیا جائے۔ اسٹبشلمنٹ ڈپارٹمنٹ ذرائع کے مطابق صوبہ بھر میں بڑی تعداد میں بھرتی درجہ چہارم ملازمین کی ہوتی ہے ایسے میں مستقل بنیادوں پر بھرتی ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن کی مد میں صوبائی خزانے پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے درجہ چہارم ملازمین کو مستقل کی بجائے یومیہ اجرت پر بھرتی کرنے کی تجویز زیر غور ہے تاہم اس حوالے سے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس پر کام شروع کردیا گیا ہے جلد ہی اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ بھی لے لیاجائے گا۔
کلاس فور ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کے جنرل سیکرٹری خالد جاوید نے اس تجویز کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں مالی مشکلات کے ذمہ دارکلاس فور ملازمین نہیں ہے۔ اگر واقعی صوبے کے مفاد میں فیصلہ سازی کرنی ہے تو سب سے پہلے چیف سیکٹری اور بعد میں تمام افسران کو یومیہ اجرت کی ادائیگی کی جائے اس اقدام سے سرکاری خزانے کو سالانہ اربوں روپے کی بچت ہوگی صرف کلاس فورملازمین سے اصلاحات کے نام پر بنیادی حق چھیننا کلاس فورملازمین کی نسل کشی کے مترادف ہے۔