لائف سٹائل

پاکستان: برفانی چیتوں کی تعداد میں کمی، وجہ انسانی تنازعات یا موسمیاتی تبدیلی؟

ہارون الرشید

پاکستان میں انسانی تنازعات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے برفانی چیتوں (تیندوا)کی آبادی میں کمی ظاہر کی گئی ہے۔

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (WWF) پاکستان کے ڈائریکٹر نارتھ حیدر رضا صرف 6 ہزار سے لیکر ساڑھے 6 ہزار برفانی چیتے کی عالمی آبادی کی پریشان کن حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں جن میں پاکستان میں صرف 300 سے 400 ہیں، تشویشناک بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں ان کے رہائش گاہوں کا محض 25 فیصد محفوظ ہے۔

حیدر رضا بتاتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیاں اور رہائش گاہ میں کمی برفانی چیتے کی نقل و حرکت میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں، خاص طور پر نشیبی علاقوں میں جہاں یہ شکار تلاش کرتا ہے، ان کے بقول جنگلی حیات کے تحفظ والے علاقوں میں انسانی سرگرمیاں برفانی چیتے کو پریشان کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان ان 12 ممالک میں شامل ہے جو ان برفانی بلیوں کی میزبانی کر رہا ہےجن کا 80 فیصد مسکن گلگت بلتستان میں ہے۔

ادھر سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے ایک سینئر پروگرام مینیجر ڈاکٹر حسین علی بھی برفانی چیتوں کی آبادی میں کمی کی نشاندہی کرتے ہیں ان کی تنظیم گلگت بلتستان میں برفانی چیتے کے تحفظ میں سرگرم عمل ہے۔ گلگت بلتستان کے منتخب دیہاتوں میں سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن نے مویشیوں کی انشورنس پالیسیاں متعارف کرائی ہیں تاکہ ان شاندار مخلوقات اور ان پر انحصار کرنے والی کمیونٹیز کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

ڈاکٹر علی کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں برفانی چیتے کی آبادی تقریباً 150 سے 200 ہے، حالانکہ صحیح اعداد و شمار غیر واضح ہیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے مشاہدہ کیا ہے کہ 1970 کی دہائی میں شاہراہ قراقرم کی تکمیل کے بعد سے گلگت بلتستان نے تیزی سے انفراسٹرکچر میں ترقی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب برفانی تیندوے کھانے کے لیے مویشیوں پر حملہ کرتے ہیں تو مالکان اپنے مویشیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ان کو مار ڈالتے ہیں جوکہ گلگت بلتستان میں برفانی چیتے کی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ انسانوں کے ساتھ تنازعات کو ختم کرنے کا کوئی مناسب طریقہ کار موجود نہیں ہے تاہم انسانی تنازعات کو کم کرنے کے لیے لوگوں کو ترغیبات دے کر انتقامی کارروائیاں نہ کرنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب برفانی چیتے شکار نہیں ڈھونڈ پاتے تو وہ مویشیوں پر حملہ کرتے ہیں اور جوابی کارروائی میں ایسے مویشیوں کے مالکان یا تو انہیں گولی مار دیتے ہیں یا پھر زہر دے دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ مردہ جانور کی لاش پر زہر لگاتے ہیں اور اسے کھلی جگہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ جب برفانی چیتے مردہ جانور کھاتے ہیں تو وہ مر جاتے ہیں۔ یہ سب سے عام طریقہ ہے جو گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں دیہاتی برفانی تیندووں کو مارنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ مویشیوں پر حملوں کو روکا جا سکے۔

واضح رہے کہ ماضی میں برفانی چیتے خیبر پختونخوا میں سوات اور کوہستان میں آباد تھے لیکن اس کے بعد سے وہ گلگت بلتستان، چترال اور آزاد جموں و کشمیر کے پہاڑوں خاص طور پر قراقرم، ہمالیہ، ہندوکش اور پامیر کے پہاڑی سلسلوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ان کے برف پوش رہائش گاہوں میں تیزی سے کمی کا باعث بنی ہے۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر سعید عباس کا کہنا ہے کہ ان برفانی چیتوں کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں انسانی تنازعات، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے رہائش گاہوں کا کم ہونا، انسانی سرگرمیوں سے مسکن کا ٹوٹ جانا اور مقامی لوگوں کی جانب سے ان کے دانتوں اور ہڈیوں کے لیے برفانی چیتے کا دل دہلا دینے والا شکار شامل ہیں۔

ماہرین پورے گلگت بلستان میں برفانی چیتوں کی آبادی میں نمایاں کمی کی تصدیق کرتے ہیں اور مقامی لوگ جو انہیں اکثر اونچائیوں پر دیکھتے تھے اب کوئی دیکھنے کی اطلاع نہیں دیتے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button