سیاست

نئی حلقہ بندیوں میں ضم اضلاع 6 نشستوں سے محروم، باجوڑ سراپا احتجاج کیوں؟

بلال یاسر

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری نئی حلقہ بندیوں میں خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع کو قومی اسمبلی کے 6 نشستوں سے محروم کردیا ہے۔ اس سے قبل ضم اضلاع کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 10 تھی جو اب 4 رہ گئیں۔

حلقہ بندیوں کی فہرست کے مطابق باجوڑ سے دو حلقے تھے این اے 40 اور این اے 41، اب نیا حلقہ این اے 8 ہوگا۔ اسی طرح قبائلی اضلاع میں سے ضلع خیبر، کرم اور اورکرزئی سے بھی ایک ایک حلقہ ختم کردیا گیا ہے۔

اس حوالے سے پی کے 19 کے لئے آزاد امیدوار ملک خالد خان نے کہا کہ ضلع باجوڑ کے لیے الیکشن کمیشن کی نئی حلقہ بندی ایک طرف خوشی کا پیغام لائی اور باجوڑ کو ایک مزید صوبائی حلقہ مل گیا تو دوسری طرف باجوڑ کو درکار آبادی کے باوجود ایک قومی حلقے سے محروم کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے حلقے کی کمی سے لوگوں میں محرومی پیدا ہوتی ہے اور مسائل جنم لیتے ہیں۔ قبائلی اضلاع میں قومی اسمبلی کی بارہ سیٹوں کو برقرار رکھنے کے لیے پچھلی حکومت نے سینٹ میں بل کو رکوا دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جہلم کی 13 لاکھ آبادی کے لیے دو قومی اسمبلی کے حلقے جبکہ باجوڑ کی 13 لاکھ آبادی کے لیے ایک حلقہ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ باجوڑ کو قومی اسمبلی کا ایک مزید حلقہ دینے کے ساتھ ساتھ حلقوں کے لیے حلقہ بندیوں کی تقسیم کو فوری طور درست کیا جائے ۔

عوامی نیشنل پارٹی باجوڑ کے جنرل سیکرٹری نثار باز نے بتایا کہ نئی حلقہ بندی کے مطابق تحصیل ماموند کے کچھ علاقے تحصیل سلارزئی پی کے 20 میں شامل کیے گئے ہیں جو کہ ان کے بقول نامناسب ہے۔ پی کے 19 لوئی اور واڑہ ماموند، لوئی ماموند ابادی 167226، واڑہ ماموند 158827 مع جدا کیے گئے علاقے ( ڈمہ ڈولہ، انعام خورو چینگی، سیسئ ،تنڑے اندازاً 34000 آبادی ) ٹوٹل آبادی 324092 ہے۔ ان کاٹے گئے علاقوں کے بجائے اگر نیاگ، لرہ بانڈہ، ڈاگ وغیرہ ( آبادی 19340) کو کاٹا جائے تو حلقہ پی کے 22 ناوگئی چارمنگ کے ساتھ ملایا جائے جو کہ ان سے متصل ہے تو اس کی آبادی 339000 ہوجائے گی۔

اسی طرح حلقہ پی کے 20 سلارزئی میں تحصیل خار کا دوردراز علاقہ زور بندر شامل کیا گیا ہے، حلقہ پی کے 21 میں تحصیل ناوگئی اور برنگ کے علاقے شامل کیے گئے ہیں، حلقہ پی کے 22 میں نامناسب انداز میں تحصیل خار اور برنگ کے علاقے شامل کیے گئے ہیں جو کہ زمینی حقائق سے بہت زیادہ دور اور بر خلاف ہیں۔

این اے کا حلقہ کم ہونے سے کیا فرق پڑے گا؟

عوامی نشینل پارٹی کے رہنما اور یوتھ لیڈر سید صدیق اکبر جان نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی سیٹ کا تعلق آبادی کے تناسب سے ہے اور آبادی کم ظاہر کرنے سے قومی اسمبلی میں نمائندگی بھی کم ہو گی اور ترقیاتی فنڈز اور وسائل بھی کم ملیں گے جس کے ساتھ پورے علاقے کے ترقیاتی کاموں پر اثر پڑتا ہے۔ حلقہ کم کرنے کے ساتھ ساتھ حلقوں کی تقسیم بھی غلط کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اپنی پارٹی اور سیاسی اتحاد کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کی سیٹ کی واپسی اور صوبائی حلقوں کی درست تقسیم کے لیے الیکشن کمیشن کو آمادہ کرسکیں کیونکہ جو تقسیم ہوئی ہے وہ نہایت غیر مناسب ہے۔ ایک تحصیل کا کچھ حصے دور دراز حلقے میں شامل کیا گیا جبکہ قریبی علاقوں کو نظر انداز کردیا گیا جو کہ مستقبل میں ہمارے لیے بڑی پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام باجوڑ کے امیر اور سابقہ سینیٹر باجوڑ میں ہونے والے نئی حلقہ بندیوں کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ زمینی حقائق کے برخلاف فیصلے ہیں جو ہم پر مسلط کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے باجوڑ کے لیے ایسی حلقہ بندیاں تشکیل دی ہے جس پر تمام جماعتوں کو شدید تحفظات ہے لہذا الیکشن کمیشن باجوڑ کے تمام نئی حلقہ بندیوں کا ازسرنو جائزہ لیکر اس پر نظر ثانی کریں اور ایسے حلقہ بندیاں تشکیل دے جس پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہو۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان باجوڑ کے ایک ذمہ دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فاٹا انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں آئین کے رولز کے مطابق چھ حلقے کم کر دیئے جس کے ساتھ خیبر پختونخوا یونٹ کے 45 قومی اسمبلی کے حلقے بن جاتے ہیں جبکہ اس کی کمی کے ساتھ خواتین اور اقلیتی سیٹوں پر اثر نہیں پڑے گا۔ نئی حلقہ بندی میں باجوڑ کو صوبائی اسمبلی کا ایک مزید حلقہ مل گیا جو کہ ان کا حق تھا۔

انہوں نے کہا کہ پختونخوا میں قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے آبادی کا تناسب سات لاکھ 88 ہزار 933 جبکہ صوبائی اسمبلی کے لئے تین لاکھ 8 ہزار 713 افراد مقرر کیا گیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button