ٹانک کے عمر رسیدہ شہری آج بھی ریل گاڑی کے سفر کو یاد کرتے ہیں
نثار بیٹنی
دور سے آتی ریل گاڑی کی سیٹی کی آواز آج بھی بسا اوقات کانوں میں گونجتی ہے، ریل گاڑی کی یہ آواز ٹانک شہر کے دور دراز علاقوں میں کہیں پر واضح اور کہیں پر مدہم سنائی دیتی تھی، ان حسین دنوں کی یادیں آج بھی دماغ کے کسی گوشے سے نکل کر پورے جسم کو معطر کر دیتی ہیں۔
ٹانک کے رہائشی وطن خان نے بتایا کہ جنڈولہ، ٹانک سے براستہ درہ پیزو، تاجہ زئی (ضلع لکی مروت اور سرائے نورنگ) بنوں شہر کے لیے ایک لوکل ریل گاڑی روزانہ جنڈولہ/ ٹانک سے چلتی تھی جس کی رفتار گوکہ آہستہ ہوتی تھی لیکن اس کا سفر پرلطف، آرام دہ اور پرسکون ہوتا تھا، یہ سفر جنڈولہ / ٹانک سے شروع ہوتا اور میاں خانی، گل امام سے ہوتا ہوا درہ پیزو اور پھر وہاں سے سرائے نورنگ کو پیچھے چھوڑتا ہوا بنوں پر اختتام پذیر ہوتا۔
حسین یادوں کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے وطن خان نے بتایا کہ یہ سفر ایک رومانوی انداز کا سفر ہوتا تھا، لوگ خصوصی طور پر ریل گاڑی کا ٹکٹ لیتے تھے جو جنڈولہ، بنوں، سرائے نورنگ اور درہ پیزو تک کا ہوتا تھا۔ یادوں کے دھریچوں کو کھولتے ہوئے وطن خان نے بتایا کہ سب سے پہلے میں نے اپنے بچپن میں اس کا ٹکٹ سوا دو روپے کا لیا تھا اور میں نے بنوں ولن ملز میں کام کی تلاش کے لیے ریل گاڑی کے سفر کا انتخاب کیا تھا، قیام پاکستان سے قبل برٹش دور حکومت میں جہاں دیگر کئی اچھے کام ہوئے وہاں ریل کے شعبے کو وسعت اور ترقی دی گئی کیونکہ اس زمانے میں ریل ہی نسبتا محفوظ اور جدید سفر تھا۔
برصغیر پاک و ہند کے دیگر علاقوں کی طرح ضلع ٹانک سے بھی ریلوے لائن بنوں کے لیے براستہ درہ پیزو اور سرائے نورنگ بچھائی گئی جو ٹانک سے اوپر جنڈولہ تک جاتی تھی لیکن اس کا مین اسٹیشن ٹانک میں تھا، اس پر روزانہ ریل گاڑی چلا کرتی تھی، یہ لوکل ریل گاڑی جو دو ڈبوں پر مشتمل تھی اس کی لمبائی 122 فٹ تھی، بھاپ کے انجن سے چلا کرتی تھی، ریل گاڑی کا عملہ 5 افراد پر مشتمل تھا جن میں ڈرائیور کے علاوہ ایک ٹکٹ چیکر، دو سکیورٹی اہلکار اور دو انجن کیئرٹیکر تھے جو بھاب سے چلنے والے انجن میں بوقت ضرورت کوئلہ ڈالتے تھے اور خرابی کی صورت میں مرمت کرتے تھے۔
ٹانک / جنڈولہ سے چلنے والی اس ریل گاڑی کا سفر 1913 میں شروع ہوا جو انتہائی خوبصورتی سے چلتا ہوا 1992 میں اختتام پذیر ہوا، صوبہ خیبرپختونخوا(اس وقت صوبہ سرحد) حکومت کی طرف سے مناسب توجہ نہ ہونے اور سفر کے دیگر جدید ذرائع کے آجانے کے باعث 1980 کی دہائی کے آغاز سے ٹانک میں ریل گاڑی کا سفر معدوم ہوتا چلا گیا اور آخرکار اس تاریخی ذرائع آمدورفت کا 1992 میں اختتام ہوگیا، بعدازاں آہستہ آہستہ اس کی پٹڑیاں تک اکھاڑ لی گئیں، آج نہ صرف ٹانک اور مضافات میں ریلوے لائن اور ریل گاڑی کا نام و نشان باقی نہیں بلکہ ٹانک کی آج کی نوجوان نسل بھی شاید ٹانک سے چلنے والی اس بہترین اور سستی ریل سروس سے بھی ناواقف ہو۔
مقامی افراد کے مطابق ٹانک سے چلنے والی لوکل ریل گاڑی کا اسٹیشن دربار پیر صابر شاہ بابا(تنگ بازار) سے کچھ فاصلے پر بنوں روڈ کی طرف آنے والی سڑک پر بنایا گیا تھا بعدازاں یہ سڑک اسٹیشن روڈ ہی کے نام سے موسوم ہوئی، اس ریلوے لائن کے روٹ میں تتور پل اور گمبیلا پل آتا تھا، یہ ریل گاڑی صبح سویرے ٹانک سے روانہ ہوتی اور تقریبا 40 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہوئی درہ پیزو اور درہ پیزو سے تاجہ زائی(ضلع لکی مروت) اور وہاں سے سرائے نورنگ سے گزر کر بنوں شہر پر اختتام پذیر ہوتی جبکہ دوپہر کے وقت دوبارہ یہ ریل گاڑی بنوں سے اسی روٹ سے ہوتی ہوئی ٹانک جاتی اور پھر جنڈولہ کے مسافر لیکر آگے روانہ ہوتی۔ اس دوران راستے میں آنے والے اسٹیشنوں پر مسافروں کو اٹھاتی اور منزل مقصود پر شام کے وقت پہنچاتی تھی۔
ٹانک کے 75 سالہ سابق سکول استاد حاجی زرو جان کے مطابق یہ ایک حسین اور دلفریب سفر ہوتا تھا گوکہ اس ریل گاڑی کی سیٹیں زیادہ آرام دہ نہیں تھیں لیکن سفر نسبتا ارام دہ اور پرسکون ہوتا تھا کیونکہ ریل کی پٹڑی آبادی سے دور ویران علاقوں، زمینوں، دریاوں اور پہاڑوں سے گزرتی تھی جس کی وجہ سے دوران سفر شہر کے ہنگاموں اور شور شرابوں کانام و نشان تک نہیں ہوتا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹانک کے ایسے رہائشی، جو سرکاری و نجی کام یا ملازمت کے سلسلے میں راولپنڈی، اسلام اباد یا لاہور میں مقیم ہوتے تھے، وہ ریل کے سفر کو ترجیح دیتے کیونکہ وہ ریل کے ذریعے میانوالی سے وی آئی پی ریل گاڑی سے بنوں آتے اور پھر یہاں سے ٹانک کی لوکل ٹرین کو پکڑ کر ٹانک کا سفر کرتے تھے۔
ٹانک کے رہائشیوں کی سفری ضروریات کے لیے ماضی میں یہ خوبصورت سروس اب معدوم ہوچکی ہے، اس کی پٹڑیاں اکھاڑ دی گئی ہیں اور اسٹیشن کے نام پر ایک خالی بھوت بنگلہ نما کمرہ دکھائی دے رہا ہے، 122 فٹ لمبی اس ریل گاڑی کا سفر آج سے 31 سال پہلے اختتام کو پہنچ چکا ہے لیکن ٹانک کے بزرگ اور عمر رسیدہ شہری آج بھی ریل گاڑی کے اس نسبتا محفوظ، سستے اور پرسکون سفر کو یاد کرتے رہتے ہیں اور ترقی کے نام پر بسوں، کاروں، موٹرسائیکلوں اور رکشہ کے بے ہنگم، آلودہ اور غیر محفوظ سفر کا رونا روتے ہیں۔