تعلیم

خیبر پختونخوا کے نجی اسکولز میں پشتو بطور مضمون پڑھانے کی ہدایت

آفتاب مہمند

خیبر پختونخوا کے تمام نجی اسکولز میں پشتو اور علاقائی زبانوں کو بطور لازمی مضمون پڑھانے کی ہدایت کر دی گئی۔

اسی حوالے سے پرائیویٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی نے نجی اسکولوں کو مراسلہ ارسال کر دیا۔ مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ پشتو اور علاقائی زبانوں کو بطور مضامین پڑھانے کے حوالے سے ریگولیٹری اتھارٹی کو فوری طور پر آگاہ کیا جائے۔

نجی اسکولز کے تمام سربراہان کو ہدایت کی گئی ہے کہ پشتو اور علاقائی زبانیں بطور لازمی مضامین قرار دینے کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے۔ مراسلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ 30 جنوری 2012 کو اس وقت کی صوبائی کابینہ نے پشتو اور علاقائی زبانوں کو بطور لازمی مضامین پڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی طرح بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے بھی صوبائی کابینہ کے فیصلے پر عمل درآمد کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔

صوبے کے تمام نجی اسکولز میں پشتو و دیگر علاقائی زبانوں کو بطور مضمون پڑھانے کے فیصلے کے حوالے سے رابطہ کرنے پر پرائیویٹ ایجوکیشن نیٹ ورک پن رجسٹرڈ کے صوبائی سینئیر نائب صدر فضل اللہ داودزئی نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ مزکورہ فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق بھی دنیا کے تمام ممالک کو اپنے قومی و علاقائی زبانوں میں تعلیم دینا چاہئیے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ علاقائی زبانیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ ان کے بقول چونکہ پشتو ہماری مادری زبان ہے، ہونا چاہئیے کہ کم از کم جماعت پنجم تک تمام مضامین پشتو زبان میں ہو۔

ان کی نظر میں مزکورہ معاملہ چونکہ عدالت میں تھا اس لیے شائد اب تک اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک تو نصاب تعلیم یکساں نہیں اور دوسری طرف اردو، انگریزی بھی پڑھائی جا رہی ہے تو ایسے میں بچوں پر اب پشتو پڑھا کر ان پر مزید بوجھ ڈالا جائے گا۔ پھر اگر دسویں جماعت کے بعد کا نصاب تعلیم دیکھا جائے تو اعلی تعلیم تک سارا نصاب انگریزی میں ہوتا ہے۔ حکومت و ریگولیٹری اتھارٹی کو یہ علم ہی نہیں کہ پشتو و دیگر علاقائی زبانوں کے مضامین شامل کرنے سے پہلے تو اساتذہ کو تربیت بھی دینی ہوگی۔

فصل اللہ داودزئی نے مزید کہا کہ ان کی نظر میں پورا تعلیمی نظام و نصاب ایک ہی زبان میں ہونا چاہییے جیسا کہ پڑوسی ملک افغانستان میں ہے۔ خیبر پختونخوا میں اگر دیکھا جائے تو یہاں ارود سپیکنگ والے لوگ بھی ہیں۔ جو پشتو بولنے والے ہیں ان میں بھی ہر علاقے کا اپنا اپنا لہجہ ہوتا ہے تو ایسے میں بچوں پر اضافی مضمون ڈال کر یقینا وہ ڈسٹرب ہو جائیں گے۔

فضل اللہ نے بتایا کہ اس وقت ایک ایسے فیصلے کے نفاذ کی کیا ضرورت تھی، اب تو آدھا تعلیمی سیشن پورا ہو رہا ہے۔ ہونا چاہئیے تھا کہ مزکورہ فیصلہ مارچ، اپریل سے نافذ کیا جاتا۔ اب جو بڑا سوال ہے کہ تعلیمی سیشن کو پورا کرنے کیلئے سالانہ 240 دن درکار ہوتے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں بمشکل 190 دن پورے نہیں ہوتے جیسا کہ بیچ میں چھٹیاں زیادہ آتی ہیں۔ اب پشتو زبان کو پڑھانے کیلئے کریڈٹ آورز کو بھی بڑھانا ہوگا جو کہ ممکن نہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button