لائف سٹائل

افغان سرحد اور صحافت پر پابندیاں؟

 

میروائس مشوانی

پاکستان کی 2600 کلو میٹر سے زائد طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ہے اور اس میں سے 1468 کلومیٹر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساتھ ہے۔

صوبہ بلوچستان کے ساتھ اس طویل بارڈر پر افغانستان کے چار صوبے لگتے ہیں جن میں ہلمند، قندھار، نمروز اور زابل شامل ہیں۔ جہاں سے مختلف سرحدی تجارت مخصوص راستوں سے کیا جاتا ہے۔ یہ چاروں صوبے دو سال پہلے تک افغان طالبان اور افغان نیشنل آرمی کے درمیان جنگ کا مرکز رہے ہیں۔

تاریخی طور پر بھی دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کہلانے والی سرحد کے دونوں جانب صدیوں سے آزادانہ تجارت، رشتہ داریوں اور باہمی تعلقات کے سبب آمدورفت جاری رہی ہے۔ چمن بارڈر پر باب دوستی اہم تجارتی گزر گاہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے سینٹرل ایشیاء کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے۔

افغانستان میں حالیہ سیاسی تبدیلی کی اثرات بلوچستان کے ضلع چمن میں صحافیوں کی زندگی پر بھی پڑے۔ بارڈر سے متعلق خبروں کی کوریج کے لیے بارڈر تک رسائی حاصل کرنا کسی مشکل سے کم نہیں۔ افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد بارڈر  پر اکثر کشیدگی دیکھی گئی ہے۔ ایسے میں صحافیوں کو چمن بارڈر سے متعلق مسائل کو رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں۔

مطیع اللّٰہ اچکزئی گزشتہ کئی سالوں سے بلوچستان کے سرحدی شہر چمن سے  معلومات کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے لیے رپورٹ کرتے ہیں۔ انہیں بھی اکثر بارڈر سے متعلق کوریج میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

مطیع اللہ کا کہنا ہے کہ چمن بارڈر صوبے کے دیگر سرحدوں سے زیادہ احساس ہے اس وجہ سے اکثر صحافیوں کو آسانی سے بارڈر تک رسائی نہیں دی جاتی جس سے بارڈر سے متعلق خبریں ملکی میڈیا میں پر شائع یا نشر نہیں ہوتیں نہ ہی سرحدی کاروبار سے وابستہ تاجروں کے مسائل رپورٹ ہوسکتے ہیں۔

مطیع اللّٰہ مزید بتاتے ہیں کہ افغانستان میں نئی حکومت آنے سے پہلے صحافی بارڈر کے دونوں طرف سے تجارتی اور آمد رفت کی معاملات پر آسانی سے رپورٹ کیا کرتے تھے لیکن اب صورتحال اس کے بر عکس ہے کیونکہ اب صحافیوں کے لیے چمن بارڈر تک رسائی ناممکن بنادی گئی ہے۔

افغان طالبان اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے مابین چمن اور طورخم بارڈر پر متعدد بار فائرنگ کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ پاکستان یہ الزامات عائد کر تا رہا ہے کہ افغان سرزمین ان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے تاہم افغان حکام ایسے الزامات کی تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی نے بارڈر کے قریب کام کرنے والے صحافیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کی ہیں۔

مطیع اللہ نے تجویز دی کہ حکومت صحافیوں کے لیے خصوصی پاسز جاری کرے تاکہ بارڈر سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل ہو اور صحافی آسانی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔

افغانستان سرحد سے متصل نوشکی ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد سعید بلوچ بتاتے ہیں کہ نوشکی سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود افغانستان اور پاکستان گزنلی بارڈر کا قیام 2005 میں لایا گیا ہے جہاں سے مختلف قسم کی تجارتی آمد رفت جاری ہے لیکن گزنلی بارڈر پر بھی صحافیوں کو آسانی سے رسائی حاصل نہیں ہے صرف مخصوص ایونٹس پر صحافیوں کو وزٹ کروایا جاتا ہے۔

سرحدی علاقوں میں اکثر موبائل نیٹ ورک نہ ہونے کی باعث صحافیوں کو مشکلات کا سامنا ہے جس سے وہ اکثر خبریں بر وقت صحافتی اداروں کو بروقت نہیں پہنچا سکتے جس سے اکثر خبریں اہمیت کھو دیتی ہیں۔

نوشکی سے تعلق رکھنے والے ایک اور صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کے شرط پر بتایا کہ نوشکی سے متصل سرحد غیر قانونی تجارت اور آمد رفت کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کی وجہ سے اکثر صحافیوں کے لیے بارڈر تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے اور بارڈر سے متعلق خبریں چلانے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

وہ بتاتے ہیں ایک دفعہ بارڈر سے چینی اور آٹا اور دیگر اشیا کی اسمگلنک کے حوالے سے ایک خبر بریک کی تھی جس کے باعث مافیا کے لوگ ان کے گھر تک پہنچ گئے۔ انہیں اور ان کے بچوں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی جس کے بعد بارڈر سے متعلق خبریں اور مضامین چھاپنے سے گریز کرنا پڑا۔

مزید بتاتے ہیں اگر حکومت بارڈر ٹریڈ کو کور کرنے والے صحافیوں کی جان و مال کی حفاظت یقینی بنائے تو اس سے غیر قانونی تجارت کو روکا جا سکتا ہے  اور حکومت کو سالانہ اربوں روپے کی آمدنی بھی ہو سکے گی۔  انہوں نے مزید کہا بلوچستان میں صحافیوں کو  کنفلیکٹ کور کرنے پر اتنی مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑتا جتنا بارڈر سے متعلق اسٹوریز کرنے پر۔

صوبہ بلوچستان کو صحافیوں کے لئے خطرناک صوبہ قرار دیا جاتا ہے، یہاں  اب تک 43 کے قریب صحافی مارے گئے ہیں جن میں 10 سے 12 صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران بم دھماکوں یا کراس فائرنگ کا نشانہ بنے۔ یہاں داعش، طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں اکثر حملے کرتی رہی ہیں۔

بلوچستان کے سرحدی شہر چمن سے تعلق رکھنے والے چیمبر آف کامرس کے رہنما اولس یار بتاتے ہیں کہ چمن افغان بارڈر کو سینٹرل ایشیا کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے جہاں سے بہت بڑے پیمانے پر پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ درآمدات اور برآمدات پاکستان بننے سے پہلے سے جاری ہے۔ بڑے پیمانے پر تجارت ہونے کے باوجود پاکستان کے دیگر سرحدوں کی نسبت چمن افغان بارڈر پر تاجر کافی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔

اولس یار اچکزئی نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سے شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری بہت سی مشکلات کو مقامی صحافی میڈیا میں رپورٹ ہی نہیں کرتے جس کی وجہ سے حکام بالا تک ہمارے مسائل نہیں پہنچتے اور ہمیں نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اولس یار اچکزئی بتاتے ہیں کہ چمن کے تاجر اسمگلنگ کے خاتمے پر یقین رکھتے ہیں اور قانونی تجارت کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں لیکن بد قسمتی سے ملک کے مختلف اداروں سے تحفظات رہے ہیں اور اکثر تاجروں کی جائز مطالبات صحافیوں کی چمن بارڈر میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے حکام بالا تک نہیں پہنچ سکتے جس کی وجہ سے اکثر تاجر چمن افغان بارڈر کو چھوڑ کر دیگر ممالک میں جاکر کاروبار کرتے ہیں جو ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر صحافی ان کے مسائل کی قومی میڈیا پر کوریج دیں تو ان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور قانونی تجارت کو فروغ مل سکتا ہے۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری منظور بلوچ بتاتے ہے کہ صحافت ہر صحافی کا آئینی حق ہے جس کے لیے ( بی یو جے ) پی ایف یو جے کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ ملک کے کسی بھی حصے میں کسی بھی صحافی کو صحافتی خدمات سر انجام دینے میں کسی قسم کی مشکل نہ ہو ۔

منظور بلوچ مزید بتاتے ہے کہ اگر بلوچستان بارڈرز پر صحافیوں کو کوریج کے لیے نہیں چھوڑا جائے گا تو صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر قسم کے اقدامات کریں گے۔

ضلع چاغی کے تحصیل نوکنڈی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ نوکنڈی میں چند سوشل میڈیا ایکٹویسٹ خود کو صحافت سے وابستہ ظاہر کرتے ہے اور باقاعدگی سے مختلف چیک پوسٹوں پر لیویز ہلکاروں سے بھتہ وصول کرتے ہیں کیونکہ نیشنل ہائی وے پر پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیا کی اسمگلنک بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بات صرف چیک پوسٹوں پر لیویز ہلکاروں سے بھتہ وصول کرنے پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر چیک پوسٹ پر انہوں نے اپنے لیے ٹوکن جاری کروایا ہے۔ یعنی ان کی اپنی گاڑیاں چلتی ہیں جن کے ذریعے اسمگلنگ کی جاتی ہے اور  ان گاڑیوں سے چیک پوسٹوں پر بھتہ وصول نہیں کیا جاتا کہ صحافی کی گاڑی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اگر ان کے خلاف اگر کاروائی کی جاتی ہے تو سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارموں پر سرکاری اداروں کے افسران اور اداروں کے خلاف بڑے منظم طریقے سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے افراد کی وجہ سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حقیقی صحافیوں کو بارڈر سے متصل علاقوں کی کوریج کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس حوالے سے نگران حکومت کی صوبائی وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی سے مؤقف جانے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا گیا  لیکن انہوں نے کسی قسم کا مؤقف دینے سے گریز کیا۔

نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button