سوات میں ٹریفک کے بڑھتے حادثات کی وجوہات کیا ہیں؟
شہزاد نوید
ضلع سوات تحصیل چارباغ کے محلہ شاہین اباد سے گھرکا سودا سلف لانے کیلئے موٹر سائیکل لے کر نکلنے والا سترہ سالہ ارشد خان جب رات دیر تک گھر نہیں لوٹا تو اس کے دوستوں سے رابطہ کیا گیا۔ ان کی جانب سے لاعلمی کے اظہار کے بعد پولیس میں رپورٹ درج کرائی گئی۔ تھوڑی چھان بین کے بعد پتہ لگا کہ وہ ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہوا تھا اور اس کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا تھا۔ جواں سال بیٹے کی موت کی خبر والدین کیلئے تو قیامت کی گھڑی تھی ہی لیکن جب ارشد خان کی لاش گھر پہنچی تو پورے محلے میں کہرام مچ گیا تھا۔
ارشد خان کے 46 سالہ والد عمر خان کے مطابق منگلور میں ان کے بیٹے کی موٹر سائیکل سامنے سے آنے والی ایک تیز رفتار گاڑی کا نشانہ بن گئی تھی۔
ضلع سوات میں آئے روز ٹریفک حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں جن میں اکثریت نوجواںوں کی ہوتی ہے جو ان حادثات میں خود یا دوسروں کی جان گنوانے کا باعث بنتے ہیں، یا اپنے یا دوسروں کے ہاتھ پیر توڑ بیٹھتے ہیں۔
معلومات تک رسائی کے قانون (آر ٹی آئی ایکٹ) کے تحت ریسکیو 1122 سے حاصل کردہ عداد و شمار کے مطابق پچھلے چھ برسوں میں سوات میں 5024 ٹریفک حادثات ہوئے ہیں جن میں 101 افراد جان بحق اور 5909 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سال 2016 میں 104 حادثات، 2017 میں 301، 2018 میں 399، 2020 میں 848، 2021 میں 1644 اور سال 2022 میں 1321 حادثات رپورٹ ہوئے ہیں۔
سب سے زیادہ حادثات مین جی ٹی روڈ پر ہوئے ہیں جو ضلع ملاکنڈ سے سوات میں داخل ہوتا ہے۔ یہ لنڈا کے چیک پوسٹ سے ہوتا ہوا مینگورہ سے ہوتے ہوئے کالام (122 کلومیٹر)تک پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ فضاگٹ تا چارباغ روڈ، کبل اور تحصیل مٹہ کی مین شاہراہ پر بھی آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں۔
سڑکیں کم اور گاڑیاں زیادہ
ضلع سوات آبادی کے لحاظ سے خیبر پختونخوا کا تیسرا بڑا ضلع (پہلا پشاور اور دوسرا مردان) ہے۔ یہاں کی ابادی سال 2017 کے اعداد و شمار(یہ ڈیٹا ڈی سی افس سے لیا گیا ہے نیا ڈیٹا ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے) کے مطابق 23 لاکھ 9 ہزار 570 تھی۔ ضلع کا مجموعی رقبہ 5337 مربع کلومیٹر ہے۔ محکمہ ٹریفک سے حاصل کردہ عداد و شمار کے مطابق سوات کی سڑکیں 300 کلومیٹر پر محیط ہیں۔
محمکہ ٹریفک سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق مینگورہ شہر کے چار سب سیکٹر کی سڑکیں 27.2 کلومیٹر، تحصیل چارباغ 18 کلومیٹر، تحصیل کبل 40 کلومیٹر، تحصیل خوازہ خیلہ 30 کلومیٹر، تحصیل مٹہ 48 کلومیٹر اور تحصیل مدین کی سڑکیں 85 کلومیٹر طویل ہیں۔ جبکہ شہر میں چھوٹی بڑی گاڑیوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ لاکھ سے زائد ہے۔
گاڑیاں اور غیرقانونی پارکنگ
ٹریفک پولیس سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں روزانہ کی بنیاد پر 53 ہزار گاڑیاں داخل ہوتی ہیں۔ صرف مینگورہ شہر میں اب تک 28 ہزار موٹر سائیکلیں، 20 ہزار رکشے، 22 ہزار کاریں اور 1230 فلائنگ کوچ اور پک اپ گاڑیاں موجود ہیں۔ جبکہ محکمہ ٹریفک کے حالیہ سروے کے مطابق مینگورہ شہر میں صرف 3 ہزار گاڑیوں کیلئے پارکنگ کی سہولت موجود ہے۔ اسی طرح سوات میں مجموعی طور پر سات تحصیلوں میں 93 بس سٹینڈز موجود ہیں جن میں 60 قانونی اور 33 غیر قانونی ہیں۔ غیر قانونی بس اسٹینڈ میں 10 مینگورہ، 17 خوازہ خیلہ، 1 مدین اور 5 چارباغ میں موجود ہیں۔ ان تمام بس سٹینڈز میں کل 6057 گاڑیوں کی گنجائش موجود ہے۔ ایسی صورتحال میں لوگوں کی اکثریت سڑک کے کناروں پر یا گلیوں میں گاڑیاں کھڑی کرتی ہے، جس سے ٹریفک کی روانی میں خلل آتا ہے۔
غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز اور نان کسٹم پیڈ گاڑیاں
حادثات کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی کی سرگرمیوں میں مصروف عمل ڈاکٹر جواد احمد کہتے ہیں کہ سوات میں زیادہ تر حادثات موٹر سائیکلوں کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ جنہیں چلانے والوں کی اکثریت غیر تربیت اور نوعمر لڑکوں پر مشتمل ہے۔ نجی کمپنیز کی جانب سے کم ماہانہ قسطوں پر موٹر سائیکل کی فروخت نے ان کا حصول بہت آسان کردیا ہے۔ پھر سوات میں چونکہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں دستیاب ہیں جو کم قیمت میں ملتی ہیں، اس لئے گاڑیوں کی بھرمار ہے۔
اس کی بڑی وجہ مقامی سطح پر پبلک ٹرانسپورٹ کا ناکافی بندوبست ہے، جو فلائنگ کوچ (پک اپ وین)، ڈاٹسن پک اپس اور سوزوکی پک اپ گاڑیوں پر مشتمل ہے۔ پہلے دور دراز علاقوں سے بڑی بسیں چلتی تھیں جو کہ اب ختم ہوگئی ہیں۔ اس لئے بازار آنے والا ایک فرد بھی کار یا موٹر سائیکل لے کر نکلتا ہے۔ پھر اکثر سڑکیں تنگ ہیں جن پر دو طرفہ ٹریفک چلتی ہے جنہیں درمیان میں الگ نہیں کیا گیا ہوتا۔ گاڑیاں تیزرفتاری اور جلد بازی کی وجہ سے مخالف لائن میں چلتی ہیں، جس کے باعث حادثات ہوتے ہیں۔
اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے ٹریفک قوانین کو مزید بہتر بنانے کے ضرورت ہے کیونکہ اکثر ڈرائیور ایک مرتبہ چالان کا پرچہ لینے کے بعد وہی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں۔ دیگر ممالک میں ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ٹکٹ دیا جاتا ہے اور پھر دوسری غلطی پر ان کا لائسنس فوری طورپر منسوخ کردیا جاتا ہے لیکن یہاں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں اکثر لوگوں کے پاس لائسنس نہیں ہوتا، انہیں شناختی کارڈ رکھ کر چالان کا پرچہ دیا جاتا ہے، لیکن مزید کوئی تادیبی کاروائی نہیں ہوتی۔
ٹریفک پولیس کا مؤقف
ایس پی ٹریفک ارشد خان کا کہنا ہے کہ سوات میں عموماً لوگ اپنے نوعمر بچوں کو گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں خرید کر دیتے ہیں جن پر وہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آگاہی کے بغیر ٹریفک حادثات میں کمی لانا ممکن نہیں اس لئے والدین کو چائیے کہ نو عمر بچوں کو گاڑیاں نہ دیں۔ ڈرائیور حضرات رفتار کی حد میں رہیں اور آبادیوں میں تیز رفتاری سے پرہیز کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان حادثات کی روک تھام کیلئے مختلف مواقع پر آگاہی مہم چلائی جاتی ہے، جبکہ لوگوں کو اس بات کا پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گاڑیاں چلانے سے روکیں۔ دوسری جانب نو پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرنے، بغیر لائسنس گاڑی چلانے اور نو عمر ڈرائیورز کے خلاف بھی کاروائی( خصوصن مینگورہ شہر اور دیگر علاقوں میں بھی) کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کیلئے پارکنگ پلازروں پر کام جاری ہے۔
ان تمام اقدامات کے ناکافی ہونے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سوات کی سات تحصیلوں میں محکمۂ ٹریفک کے پاس 12 پک اپ گاڑیاں،دو ٹرک، ایک موبائیل کنٹین، تین لفٹر، 4 فلائنگ کوچ، دو ایمبولنسز، 72 موٹر سائیکلیں (250 سی سی کے تعداد 34، 150 سی سی کے تعداد تین اور 125 سی سی کے تعداد 35 ) ہیں۔ مختلف تحصیلوں میں ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کیلئے محکمۂ ٹریفک کے پاس ایک بیس سیٹ، 76 پاکٹ فونز اور 685 ٹریفک کونس دستیاب ہیں۔
جبکہ محکمۂ ٹریفک کو قوانین پر عملدرآمد اور نظام کی بہتری کیلئے 10 انسپکٹر، 20 سب انسپکٹرز، 200 ایف سی ایس اہلکاروں پر مشتمل مزید عملہ اور سازوسامان جیسے پانچ سپیڈ گنز، 3000 سیمنٹ بلاکس، 10 فورک لفٹر، 1000 کونز اور 500 ڈیوائیڈرز کے ضرورت ہے جس سے امید کی جاسکتی ہیں کہ ٹریفک نظام میں بہتری آئے گی۔